Hast-o-Bood Part-47
باب نہم
میاں محمد اعظم کے فرزند میاں رسول بخش اور ان کے ورثاء
رائے عبدالحکیم کے دوسرے صاحبزادے میاں محمد اعظم تھے۔۔ جن کی نسبت مکمل کوائف باب ششم میں مذکور ہیں۔ اُنکے ہر دو پسران میاں رسول بخش اور میاں نور خان کے بارہ میں سیر حاصل تذکرہ ہو چکا ہے۔ اب ہم میاں رسول بخش کے کے ورثاء کے بارہ میں حقائق کی نقاب کشائی کریں گے۔ میاں رسول بخش نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی زوجہ سے صرف ایک فرزند میاں امیر بخش پیدا ہوئے اور ان کے چند سال بعد اُن کا انتقال ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے دوسری شادی کی۔ جس سے ان کے ہاں تین فرزند میاں وزیر بخش، میاں مراد علی، میاں حسین بخش اور ایک دختر تولد ہوئے۔ میاں امیر بخش نے دو شادیاں کیں۔ انکی پہلی زوجہ سے میاں فیروز دین پیدا ہوئے۔ جبکہ انکی دوسری زوجہ سے صرف ایک دختر تھی جو ابھی تک ضعیف العمری میں زندہ موجود ہیں۔ میاں فیروز دین نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطورپٹواری کیا۔ انکی شادی میاں نظام دین کی دختر سے ہوئی جن سے ان کے واحد پسر میاں ظہورالدین سال ۱۸۷۹ء میں پیدا ہوئے ۔میاں ظہورالدین اپنے والدین کے اکلوتے پسر ہونے کی بنا پر بہت ہی لاڈلے تھے۔ انہوں نے مڈل تک تعلیم حاصل کی، وہ تنو مند اور با رعب سروقامت نوجوان تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں ملک عراق میں تشریف لے گئے۔ بعدہ وہ ملک برما میں منتقل ہوئے۔ جہاں ۱۱ سال تک ٹھیکیداری محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی۔ یہاں ان کے واحد پسر میاں عبدالعزیز انکی اہلیہ اور بہو ان کے ہمراہ تھے۔ یہیں سے وہ گجرات سال ۱۹۴۰ میں چلے آئے جہاں انہوں نے منشیات منشیات کا لائیسنس حاصل کیا اور اور تین سال تک منشیات کا ٹھیکہ چلاتے رہے۔ اور بعد ۱۴ اپریل ۱۹۴۴ء کو واصل بحق ہوئے۔ میاں ظہور الدین ہمہ گیر خوبیوں کے مالک تھے۔ میاں ظہورالدین کے پسر میاں عبدالعزیز ۵ مئی ۱۹۰۱ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انکی شادی ساہووالہ ضلع سیالکوٹ میں ان کے ماموں کی لڑکی سے ہوئی۔ لیکن بعد میں یہ شادی طلاق پر منتج ہوئی۔ دوبارہ انہوں نے ایک بیوہ سے لاھور میں شادی رچائی لیکن ان سے بھی نباہ کی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ چنانچہ ان کو بھی طلاق ہو گئی۔ تیسری شادی اپنے قیام برما کے دوران انہوں نے ملک برما کی ایک دوشیزہ سے کی۔ ان کی زوجہ اول اور زوجہ دوم سے علی الترتیب ایک ایک فرزند تولد ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے انکا فرزند اول ولادت کے فوراً بعد فوت ہو گیا اور دورسری زوجہ سے فرزند ثانی بھی پیدائش کے چند دن کے بعد ہی راہی عدم ہوا۔ میاں عبدالعزیز نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۲۱ء میں جنگ عظیم کے دوران عراق نیوی میں ہائی کمیشنر ہند ملک عراق کے زیر کنٹرول محکمہ سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ کے ہیڈ کلرک کی حیثیت سے کیا۔ یہیں پر وہ ترقی یاب ہو کر سال سال ۱۹۲۷ء و ۱۹۲۸ء میں ہیڈ ٹائیپسٹ ہو گئے۔ یہاں سے فراغت کے بعد سال ۱۹۲۹ء میں وہ اپنے والد اور دیگرافراد کنبہ کے ہمراہ ملک برما میں چلے گئے۔ جہاں دونوں کے باہمی اشتراک سے ٹھیکیداری محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں کی۔ وہاں سے سال ۱۹۳۲ء میں واپس گجرات آئے۔ اور پھر جلد ہی انگلو ایرانین کمپنی میں بطور چیف کلرک فائٹر ڈیپارٹمنٹ بھرتی ہوکر ایران چلے گئے۔ یہاں وہ ۶ سال تک مقیم رہے۔ وہاں سے واپسی پر سال ۱۰۹۴ء میں وہ بطور کنسٹرکشن سپروائیزر یونائیٹڈ سٹیم شپنگ کمپنی ڈھاکہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش سے منسلک ہو گئے جہاں وہ دو سال تک کام کرتے رہے۔ سال ۱۹۴۲ء کے اختتام پر وہ وطن واپس تشریف لائے اور اپنے جدی گھر محلہ چابکسواراں گجرات میں اقامت گزیر ہوئے۔ سال ۱۹۴۳ء میں وہ بطور مینیجر خالق انڈسٹریز رجسٹرڈ نظام آباد [وزیر آباد] مقرر ہوئے۔ یہاں انہوں نے ۲ سال کام کیا، یہاں سے وہ سٹین لیس سٹیل انڈسٹریز گوجرانوالہ کے مینیجر درآمدات و برآمداد ہیں۔ میاں عبدالعزیز ایک خوش معاملہ، صلح جو، ہمدردر، شریف النفس اور مرنج مریخ فرد قوم ہیں۔ گوجرانوالہ سے قریباً ہر ہفتہ اپنی رہائش گاہ پر گجرات تشریف لاتے ہیں، اور نجی مجلس بھرپا کرتے ہیں۔
جاری ہے ۔۔۔۔
Comments
Post a Comment