Posts

Showing posts with the label Col. Mahmood Khan

Hast-o-Bood Part-33

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ قلعہ تھروچی پر مکرر قبضہ کرنے کے بعد کرنل رحمت اللہ ڈوگرہ کمانڈر نے کپتان پریتم سنگھ سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد علاقہ میں گشت کے لیے متعدد پلاٹون بنائیں اور کرنل راجہ محمد محمود خان کی اقامت گاہ کے بالکل ملحق بلکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اپنی فوجی چوکی قائم کر دی تاکہ وہ کرنل صاحب اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمی پر کڑی نظر رکھ سکیں۔اِس چوکی پر گورکھا سپاہی تعینات کئی گئے۔ اب کرنل صاحب کے لیے صورت حالات نہایت سنگین ھو گئِی۔ اگلے دن جب اس چوکی سپاہی تبدیل کرنے کے سلسلہ میں کرنل رحمت اللہ بھِی آئے تو کرنل راجہ محمد محمود خان نے اُن سے تخلیہ میں بات چیت کرنے کی استدعا کی۔ چنانچہ ہر دو نے تھوڑے عرصہ کے لیے بطور مسلم برادران ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل سے سنا۔ کرنل راجہ محمد محمود خان نے کرنل رحمت اللہ کو کہا کہ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ریاست کا حکمران سِکھ ہونے کے باوصف اپنے آباء و اجداد سے سے ہی اسلام کا دشمن ہے۔ اگر اب ہم نے غیر مسلموں کی جابرانہ حکومت سے گلو خلاصی نہ کروائِی تو اس سرزمین میں کشمیری عوام ہمیشہ کے لیے غلامی کی

Hast-o-Bood Part-32

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ اب جہاد کا محور کرنل راجہ محمد محمود خان کا علاقہ گلپور، تھروچ اور کھٹکلی تھا جس کے حدود میں تھروچی کا مضبوط قلعہ ڈوگرہ حکومت کا اس علاقہ میں آخری استعماری نشان تھا۔ اِس قلعہ میں دو پلٹن فورس تھی۔ جس میں سے ایک پلٹن مسلمان سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل تھی جبکہ دوسری پلٹن گورکھا سپاہیوں کی قیادت کیپٹن پریم سِنگھ گورکھا کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن مسلمان پلٹن میں دو افسران کرنل محمد حسین اور کمانڈنٹ کرنل رحمت اللہ تھے۔ اس لحاظ سے ہر دو پلٹنوں کی اعلیٰ قیادت کرنل رحمت اللہ کے پاس تھی جس نے کرنل راجہ محمد محمود خان کو قلعہ تھروچی میں طلب کیا۔ راجہ صاحب کرنل رحمت اللہ کو پہلے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے بلا خوف وخطر اُس کے پاس چلے گئے۔ اُس نے راجہ صاحب سے رسد اور خوراک کی فراہمی کی استدعا کی۔ جو اسلامی اخوت اور جذبہ خیر سگالی کے تحت راجہ صاحب نے مہیا فرما دی۔ اِس پر انہیں کہا گیا کہ وہ لوکل ہندو آبادی سے بھِی فراہمی خوراک کے سلسلہ میں رابطہ قائم کریں۔ چنانچہ وہ اسی بہانہ تمام علاقہ میں حالات کا جائزہ لیتے رہے اور اپنی تنظیم کی سرگرمیوں

Hast-o-Bood Part-31

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Col. Raja Muhammad Mahmood Khan (Late) مہاراجہ گلاب سِنگھ ڈوگرہ نےعلاقہ کوٹلی کے مضبوط ترین قلعہ تھروچی کو اپنی صوابدید کے مطابق پھر سے درست کروایا اور اِس کی جنگی اہمیت، حکومت کی انتظامی گرفت کے پیش نظر اور قوم منگرال کو مطیع رکھنے کی غرض سے یہاں مضبوط فوجی چوکی قائم کی جو تقسیم پاک و ہند تک قائم رہی۔ مملکتِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر میں بھی تحریک آزادی نےانگڑائی لی اور ڈوگرہ غلامی کے جوتے کو اُتار پھینکنے کی جدوجہد زور شور سے شروع ھوئی۔ منگرال راجپوت قومی غیرت اور انتقام کی آک میں پچھلی صدی سے جل رہے تھَے۔ اُن کی بیشتر نفری انگریزی افواج میں بھرتی ھو کر لہو گرم رکھنے کے بہانہ عہدِرفتہ کو آواز دیتی ھوئِی  وقت سے سمجھوتہ کیے ھوئے تھی۔ اکثر فوجی پینشنرز آتشِ زیر پا عزم کی مشعلیں روشن کیے ھوئے تھے۔ کسے خبر تھی کہ قلعہ تھروچی جو سردار ستارمحمدخان منگرال اور اُن کے جیالے ساتھیوں سے بزور شمشیر سِکھوں نے حاصل کیا تھا۔ اُن کے زیرک اور بہادر پڑپوتے کرنل محمد محمود خان کی حکمت عملی اور حسنِ تدبر سے

Hast-o-Bood Part-30

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ تھروچی کا مضبوط قلعہ راجہ سہنس پال جب امور سلطنت سے فارِغ ھوا تو اُس نے ریاست میں ترویج دینِ اسلام اور عوام کے رجحانات کا بہ نظر عمیق جائزہ لینا شروع کیا۔ اسلامی بھائی چارہ، رواداری، تنظیم اور اخلاق نے اُسے انتہائی طور پر متاثر کیا۔ دن بدن غور و خوض اور دلچسپی نے اُسے دینِ برحق کی طرف پورے طور سے راغب کر دیا اور وہ کلمہ پڑھے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس کے دین اسلام قبول کرنے سے کوٹلی کے تمام معتبرین نے مذہب اسلام قبول کر لیا۔ راجہ سہنس پال نے باوجود مسلمان ھوجانے کے اپنا نام تبدیل نہ کیا۔ اپ اُس نے اپنے موروثِ اعلی راجہ مہنگرپال کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے کوہ تلی {پہاڑ کے نیچے} وادی میں کوٹلی منگرالاں نامی بستی آباد کی۔ [1] ۔ اور پوری کوشش سے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مستقل دارالسلطنت کا انعقاد کیا۔ یہاں کی آبادی دن بدن بڑھتی گئِی۔ راجہ سہنس پال کی وفات پر اُس کے چار شہزادوں راجہ دان خان، راجہ تاتار خان، راجہ قندھار خان اور راجہ جانب خان سلطنت کے مختلف اطراف و جوائب میں پھیل گئے۔ راجہ دان خان کے پسر راجہ پریتم خان اور اُن کے صاحب زادے