Hast-o-Bood Part-31

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ

Col. Raja Muhammad Mahmood Khan (Late)

مہاراجہ گلاب سِنگھ ڈوگرہ نےعلاقہ کوٹلی کے مضبوط ترین قلعہ تھروچی کو اپنی صوابدید کے مطابق پھر سے درست کروایا اور اِس کی جنگی اہمیت، حکومت کی انتظامی گرفت کے پیش نظر اور قوم منگرال کو مطیع رکھنے کی غرض سے یہاں مضبوط فوجی چوکی قائم کی جو تقسیم پاک و ہند تک قائم رہی۔ مملکتِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر میں بھی تحریک آزادی نےانگڑائی لی اور ڈوگرہ غلامی کے جوتے کو اُتار پھینکنے کی جدوجہد زور شور سے شروع ھوئی۔ منگرال راجپوت قومی غیرت اور انتقام کی آک میں پچھلی صدی سے جل رہے تھَے۔ اُن کی بیشتر نفری انگریزی افواج میں بھرتی ھو کر لہو گرم رکھنے کے بہانہ عہدِرفتہ کو آواز دیتی ھوئِی  وقت سے سمجھوتہ کیے ھوئے تھی۔ اکثر فوجی پینشنرز آتشِ زیر پا عزم کی مشعلیں روشن کیے ھوئے تھے۔ کسے خبر تھی کہ قلعہ تھروچی جو سردار ستارمحمدخان منگرال اور اُن کے جیالے ساتھیوں سے بزور شمشیر سِکھوں نے حاصل کیا تھا۔ اُن کے زیرک اور بہادر پڑپوتے کرنل محمد محمود خان کی حکمت عملی اور حسنِ تدبر سے اگست 1947ء میں ہی ڈوگرا افواج سے آزاد کروالیاجاوے گا اور قلعہ اور اس سے ملحقہ علاقہ معہ وادیِ سہنسہ منگرال راجپوتوں کہ بہادری اور عزمِ راسخ سے بزور شمشیر ڈوگرہ حاکموں سے آزاد کرا کے آزادکشمیر گورنمنٹ کا بازوئے شمشیر زن بنا دیا جائے گا۔ 

اِس اجمال کی تفصیل خود کرنل راجہ محمد محمود خان کی زبانی سنئے جو انہوں نے قلعہ تھروچی کے بالمقابل اپنی پہاڑی رہائش گاہ ڈھوک گوھڑہ بیالیاں {٘موضع کھٹکلی} پر مولف کی اُن کی خدمت میں حاضری پر بیان فرمائی۔

اپنے بارہ میں تفصیلات سے استفسار پر کرنل صاحب نے فرمایا کہ وہ سال 1892ء میں پیدا ھوئے۔ ابتدائی تعلیم محض حروف شناسی تک محدود تھی۔ قومی پیشہ سپہ گری اور راجپوتی اقدار کا تحفظ ھونے کے ناطے وہ حکومتِ ہند کی افواج میں فروری 1908ء میں بطور سپاہی بھرتی ھوئے۔ فوج میں ہی سیکنڈ انگلش آرمی کورس پاس کیا۔ اعلیٰ ڈسپلن، محنت اور حُسنِ کارکردگی کے حامِل ھونے کی بنا پر سال 1937ء میں صوبیدار میجر بنائے گئے۔ سال 1941ء میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے۔ سال 1946ء میں کپٹن کے عہدہ پر ترقی یاب ھوئے اور فرسٹ فرنٹیئر فورس رجمنٹ {انفینٹری} سے منسلک کیَے گئے۔ اپنی ملازمت کے دوران اعلٰی کارکردگی اُن کا طرہِ امتیاز رہا۔ اگست 1946ء میں یہیں سے بطور کپتان پنشن پر آئے اور موضع کھٹکلی میں امامت گزیں ھوئے۔ اس زمانہ میں جموں و کشمیر میں پاکستان کے ساتھ الحاق اور ڈوگرہ استبداد سے نجات کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ کرنل صاحب کی معاملہ فہمی نے جلد نہی انہیں قومی شیرازہ بندی اورمنگرال سابقہ فوجیوں اور فوجی پینشنرز کو ایک تنظیم کے تحت کام کرنے کے لیے متحد کرنے کی اہمیّت کا احساس دلایا اور انہوں نے دیگر منگرال سرداروں کے علاوہ علاقہ کے معتبرین کے ہمراہ جامع مسجد کوٹلی منگرالاں میں ایک میٹنگ بلائی اور جلسہ عام سے خطاب کر کے حاضرین کو علاقہ وار فوجی تنظیمیں بنانے کی افادیت سے آگاہ کیا۔ جلد ہی یہ تحریک عملی صورت اختیار کرگئی۔ علاقہ وار فوجی کمپنیاں بنائی گئیں۔ چنانچہ اگست 1947ء میں 10 کوٹلی بٹالین معرِض وجود میں آئی جس کے متفقہ طور پر کرنل اور سربراہ کرنل راجہ محمد محمود خان بنائے گئے۔ اس بٹالین کے افراد اپنے اپنے علاقہ میں اپنی اپنی نفری کے مطابق علیحدہ علیحدہ پلٹنوں کی صورت میں دفاعی امور سرانجام دینے اور ایک دوسرے کی بوقت ضرورت امداد کرنے کے ذمہ دار تھے۔

اِن فوجی سرگرمیوں کی اطلاع پا کر راجہ ہری سنگھ ڈوگرہ موقع پر حالات کا جائزہ لینے خود کوٹلی منگرالاں میں آیا۔ کرنل محمد محمود خان کو متفقہ طور پر سابقہ فوجیوں نے مہاراجہ سے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا۔ اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ صرف درباری حیثیت میں کرنل صاحب سے علیک سلیک تک اپنی ملاقات محدود رکھنے کا متمنی تھا لیکن کرنل صاحب نے کمال دلیری اور بیباکی سے مہاراجہ کو بھرے دربار میں بتایا کہ منگرال قوم نے ریاست کی حکومت سے پچھلی صدی سے مکمل تعاون کیا ہے لیکن اب اُن کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ مہاراجہ ریاست جموں کشمیر کے الحاق مملکتِ پاکستان سے کرے بصورت دیگر غیور قوم مجبور ھو گی کہ اپنی آزادی کے لیے حکومتِ وقت سے ٹکرائے۔ یادرہے کہ مہاراجہ اُس وقت برسراقتدار تھا اور کسی جابر حاکم کے سامنے کمہ حق کہنے کے لیے کرنل محمد محمود خان جیسے جری اور مردِ آہن کی ضرورت تھی۔

کافر ہے تو شمشیر پہ رکھتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس مردِحق گو کی بات پر ناک بھوں چڑہایا لیکن کرنل صاحب کی عسکری قوت، اثرورسوخ اور وقت کی نزاکت کو بھانپنے ھوئے خاموش رہا اور بعد از ملاقات واپس سری نگر چلا گیا۔ 

جنگِ آزادی قلعہ ادین سے خوش حال خان ستی راجپوت کی قیادت میں اور پاک پتن میں راجہ سخی دلیر خان منگرال کی سربراہی میں شروع ھوئی اور ہر دو جگہ ڈوگرہ فوج کا قلع قمع کر کے اُسے نیست و نابود کر دیا گیا۔ یوں ہر دو جگہوں پر مجاھدین کا قبضہ ھو گیا۔

دوسری جانب سہنسہ کی وادی اور قلعہ تھروچی کے علاقہ میں شورش بھرپا کی گئی۔ قلعہ تھروچی اور اِس سے ملحق گائوں تھروچ کے علاوہ اردگرد منگرال راجپوت قوم کی آبادی تھی۔ جو فوجی تنظیم مرتبہ کرنل راجہ محمد محمود خان سے منسلک تھی۔


وادیِ سہنسہ میں صوبیدار پنشنر باروخان سُدھن کی کارکردگی میں منگرالانِ علاقہ اور سدھن قوم کے جری فوجیوں نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے اور ڈوگرہ فوج کےخلاف جہاد جاری رکھا۔ صوبیدار مذکورہ اسی جہاد کےدوران شہید ھوئے۔

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

علاقہ کے فوجیوں نے ڈوگرہ سپاہ پر گھیرا تنگ کر کے انہیں ختم کرنا چاہا لیکن ڈوگرہ فوج کے مسلمان کرنل حمید خان نے مہلت طلب کر کے کمال عیاری سے رات کے اندھیرے میں ڈوگرہ اور مسلم {ملی جلی} فوج کو یہاں سے نکال لیا۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔۔

نوٹ: بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

  1. اللہ کرنل محمود خان کے درجات بلند فرماۓ۔ آمین۔

    ReplyDelete
  2. اللہ پاک مغفرت فرماۓ۔اور شہدا کو اعلی علیین میں مقام عطافرماۓ

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں