Hast-o-Bood Part-32
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
اب جہاد کا محور کرنل راجہ محمد محمود خان کا علاقہ گلپور، تھروچ اور کھٹکلی تھا جس کے حدود میں تھروچی کا مضبوط قلعہ ڈوگرہ حکومت کا اس علاقہ میں آخری استعماری نشان تھا۔ اِس قلعہ میں دو پلٹن فورس تھی۔ جس میں سے ایک پلٹن مسلمان سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل تھی جبکہ دوسری پلٹن گورکھا سپاہیوں کی قیادت کیپٹن پریم سِنگھ گورکھا کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن مسلمان پلٹن میں دو افسران کرنل محمد حسین اور کمانڈنٹ کرنل رحمت اللہ تھے۔ اس لحاظ سے ہر دو پلٹنوں کی اعلیٰ قیادت کرنل رحمت اللہ کے پاس تھی جس نے کرنل راجہ محمد محمود خان کو قلعہ تھروچی میں طلب کیا۔ راجہ صاحب کرنل رحمت اللہ کو پہلے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے بلا خوف وخطر اُس کے پاس چلے گئے۔ اُس نے راجہ صاحب سے رسد اور خوراک کی فراہمی کی استدعا کی۔ جو اسلامی اخوت اور جذبہ خیر سگالی کے تحت راجہ صاحب نے مہیا فرما دی۔ اِس پر انہیں کہا گیا کہ وہ لوکل ہندو آبادی سے بھِی فراہمی خوراک کے سلسلہ میں رابطہ قائم کریں۔ چنانچہ وہ اسی بہانہ تمام علاقہ میں حالات کا جائزہ لیتے رہے اور اپنی تنظیم کی سرگرمیوں سے بھِی حالات کے مطابق مناسب طور پر آگاہ ھونے کے بعد احکامات دیتے رہے۔ ایک دن وہ سہنسہ سے اپنی پوزیشن کے بارہ میں معلومات کر کے لوٹ رہے تھے کہ راستہ میں اُن کے ایک معتمد نے اُنہیں بتایا کہ دُشمن تھروچی کا قلعہ خالی کر کے چلا گیا ہے۔ اُس وقت کرنل راجہ محمد محمود خان کے ساتھ صرف پانچ فوجی منگرال پنشنرز تھے۔ وہ اپنی گھر موضع کھٹکلی جانے کے بجائے تھروچی کے پہاڑی قلعہ پر جنوبی جانب سے چڑھ کر اندر داخل ھوئے تو سچ مچ قلعہ میں چند توپوں اور بارود کی تھوڑی سی مقدار کے علاوہ کوئی متنفس نہ پایا۔ انہوں نے اپسے غیبی تائید گردانتے ھوئے نیک فال سمجھا اور فوراً ہی اپنی چادر کو پھاڑ کر جھنڈا بنایا اور ارد گرد کے ساتھیوں کو خوشخبری سنانے کے لیے اکیس توپیں سر کر کے اپنا جھنڈآ قلعہ پر لہرا دیا۔ اور ساتھ ہی ان چھ جانبازوں نے آزادی کے پرچم کو سلامی دی۔ اُن توپوں کی گھن گرج سن کر آزاد افواج سہنسہ سے صُوبیدار خوشحال خان اور میجر محمد حسین بھِی تھروچی تشریف لے آئے اور قلعہ میں پہنچ کر کرنل صاحب کو مبارکباد پیش کی۔
رات کو مخبری ھوئی کہ ڈوگرہ فوج جو شمالی علاقہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اپنی دانست میں قلعہ تھروچی کو محفوظ سمجھتے ھوئے خالی چھوڑ گئی تھی توپوں کی گھن گرج سن کر خطرہ بھانپتے ھوئَے تسخیر قلعہ کے لیے پورے سازوسامان کے ساتھ واپس آرہی ہے۔ اُس وقت کرنل صاحب اور اُن کے ہمراہی کُل آٹھ آدمی قلعہ میں موجود تھے۔ اور اسلحہ بھی اُن کے پاس واجبی ہی تھا۔ افواج سہنسہ کے ہر دو افسران تو یہ خبر سُنتے ہی سہنسہ واپس روانہ ھو گئَے۔ اپ کرنل صاحب نے اپنے ہمراہیوں میں سے ایک منگرال فوجی کو یہاں سے 12 میل کے فاصلہ پر کوٹلی منگرالاں میں مدد کے لیے روانہ کر دیا اور بقیہ پانچ افراد کا ٹولہ کرنل صاحب کی قیادت میں قلعہ اور پرچم کی حفاظت کے لیے قیام پزیر رہا۔ صبحِ کاذب کے آثار کے ساتھ ہی کرنل صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ دشمن کی دو کمپنیوں کے سپاہی اور افسران تین اطراف سے قلعہ تھروچی کے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے اور خاموشی سے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ھوئے شب خون مارنے کے درپے تھے۔ حالات کی نظاکت کا احساس کرتے ھوئے کرنل صاحب کی چھَٹی حس نے انہیں اپنے ساتھیوں سمیت فی الفور قلعہ کے واحد خالی جانب سے فرار ھوجانے کا مشورہ دیا۔ جس پر اِس صفائی سے عمل کیا گیا کہ ڈوگرہ فوج کو وہم تک نہ ھوا کہ کِس نے قلعہ پر تصرف کر کے جھنڈا لہرایا تھا۔ کرنل صاحب ملحقہ پہاڑی پر اپنے ڈیرہ ڈھوک گوھڑہ بیہالیاں {٘موضع کھٹکلی} میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ بحفاظت صبح ھونے سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور وہاں سے دشمن کی نقل و حرکت کا بخوبی اندازہ کر رہے تھے۔ اِس سے چند گھنٹے بعد کوٹلی منگرالاں سے 27 فوجی جوانوں کی کمک کرنل صاحب کے پاس محمد اقبال بٹ کی سرکردگی میں پہنچ چکی تھِی۔ لیکن چونکہ یہ جوان دیر سے پہنچے تھے اس لیے قلعہ کے دفاع اور جنگ و جدل کی صورت پیش نہ آسکی۔ اور اب کرنل صاحب کے پاس حکمت عملی اور موزوں وقت میں کسی مناسب اقدام کرنے کی صورت کے علاوہ اور کوئِی طریقہ کار نہیں رہا تھا کیونکہ اپنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اپنے سے کئِی گنا سازوسامان سے لیس فوج سے مقابلہ کرنا خود کو ہلاکت سے دوچار کرنا بلکہ خودکشی کے مترادف تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
[نوٹ: یہاں ایک بات بہت ہی تعجب کی ہے کہ کرنل صاحب کے دائیں بازو لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان غازی کشمیر کو مصنف اپنی کتاب میں بھول رہیں ہیں۔ لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان نہ صرف کرنل صاحب کے دائیں بازو تھے بلکہ بانیانِ 11 اے کے بٹالین میں سے تھے، جنہوں نے لمحہ بہ لمحہ کرنل صاحب کا ساتھ دیا۔ مصنف سہرمنڈی سے سہنسہ جارہا ہے اور سہنسہ سے سہرمنڈی کے رستہ واپس گلپور بار بار ان علاقوں کا ذکر ہے لیکن لیفٹیننٹ کرم داد خان اِس ذکر میں موجود نہیں حالانکہ 2015ء میں جی ایچ کیو سے ایک خصوصی رسالہ کی اشاعت میں کرنل صاحب کے ساتھ لیفٹیننٹ کرم داد خان غازی کشمیر کی تصاویر اور تذکرہ جی ایچ کیو نے کیا جو میں نے خود دیکھا اور پڑھا۔ یہ رسالہ راجہ آفتاب حسین پوتا صاحب کے پاس محفوظ ہے اور راجہ سرفراز احمد خان نے 2016 ء میں اپنی کتاب میں اِس کا عکس دیا ہے۔ قاری خود اس بات کا اندازہ لگائیں کہ مصنف نے ایسا کیوں کیا؟ کیا علمی خیانت تو نہیں کی گئی؟ یہ صرف سوالات ہیں بدگمانی نہیں، کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ کرنل صاحب مرحوم نے اپنے بیان میں مصنف سے لیفٹیننٹ کرم داد خان صاحب کا ذکر نہ کیا ہو۔]
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment