Hast-o-Bood Part-12

باب دوم 

وطنیت اور قومیت کا تصور

خود رسول معظم کے دور حکومت میں مہاجرین کی جانب سے سے شاہ نجاشی کے دربار میں یہودِ مکہ کے اعتراضات کے جواب میں حضرت جعفر بن طیار کا تاریخی خطبہ اسی حقیقت کی کھلی دربار میں نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ پاک نے ہماری قوم [قبیلہ] میں ایک نبی مبعوث فرمایا۔ گویا اللہ کریم نے اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے ان کی قوم [قبیلہ] میں سے اپنا پیغمبر اور نبی انتخاب فرمایا۔ قوموں کے وجود اور اجزاۓ ترکیبی کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن حکیم کے پارہ نمبر 26 کی ذیلی سورۃ الحجرات ایک قطعی اور واضح شہادت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

ترجمہ:  اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہارے قبیلےاور ایک دوسرے کو شناخت کر سکو۔ تم میں سب سے زیادہ شریف وہی ہے جو صاحب تقوی اور زیادہ پرہیزگار ہے۔

 اس آیت کریمہ میں خداوند بزرگ و برتر نے قومیت اور برادری کی تشکیل کی وجہ مختلف قوموں کی باہمی شناخت بیان فرما دی لیکن شرافت کی اساس تقوی اور پرہیزگاری متعین فرمائی۔ اپنی نسل خاندان اور قوم پر بے جا فخر کسی دوسرے خاندان،  قوم کنبہ یا نسل کے فرد یا افراد کو نسلی عصبیت کی وجہ سے کمتر یا اپنے سے حقیرتصور کرنا  تقوی اور پرہیزگاری کے منافی قرار دیا گیا۔

خود پیغمبر اسلام جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمائے گئے نے اپنے عظیم مشن کا آغاز اپنے اہل خانہ، اہل کنبہ اور اہل قوم سے کیا، اور مشیئت ایزدی بھی یہی تھی۔ مذہب اسلام میں امت واحدہ کا تصور بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور اسی نقطہ کو حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ:

بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

یہ اکائی کیسے عمل میں لائی جا سکتی تھی۔ اس کی واحد صورت مختلف گروہ، قومیتوں اور زمروں میں بٹے ہوئے افراد کی فرداً فرداً  اور قومیت وار اصلاح تھی۔ اور یہ مختلف قومیتیں احکام خداوندی کے تابع ایک دوسرے کی پہچان کے لیے معرض وجود میں آئی تھیں۔ اس لیے قومی اور قومیتوں کی تاریخ محض جاننے اور پہچاننے کی حد تک محدود ہے اور یہ نظریہ کسی صورت میں بھی ملت اسلامیہ کی تشکیل کے تخیل سے متصادم نہیں ہے۔

اسلام نے نسب کی حفاظت کی مخالفت میں کچھ نہیں کہا۔ بلکہ باہمی جان پہچان اور تعارف کی غرض سے کنبوں اور قبیلوں کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ اپنے اپنے نسب سے آگاہ رہنے کی تاکید میں ترمذی کی اس حدیث سے استفادہ اس حقیر سی تصنیف کی افادیت کا ضامن ہو گا ارشادرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: 

ترجمہ : تم اپنے نسبوں کا علم سیکھو تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے رشتہ ملاؤ۔ بے شک اپنے اقرباء سے سلوک رکھنا، کنبے میں محبت پیدا کرتا ہے اس سے مال میں زیادتی ہوتی ہے اور عمر بڑھتی ہے۔

جاری ہے…….۔

Comments

  1. ماشاءالله
    ہست و بود کاپیج جو گروپ میں شئیرکیا جاتاہےوہ صیح معنوں میں اسلام اور قومیت کو اجاگر کرتاہےآپ عظیم لوگ ہیں عظیم مشن پر چل رہے ہیں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں