Hast-o-Bood Part-23

باب چہارم

ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ



شہنشاہ جہانگیر کی وفات کے بعد[۱] شہزادہ خرم بطور ابوالمظفر شہاب الدین شاہجہاں شہنشاہ ہند ھوا۔ اس نے اپنی دور حکومت سن سولہ سو ستائیس عیسوی تا سن سولہ سو ستاون عیسوی میں چار مرتبہ کشمیر کی سیاحت کی۔ پہلی مرتبہ وہ سن سولہ سو پینتیس عیسوی میں، دوسری مرتبہ سن سولہ سو اڑتیس عیسوی میں، تسری دفعہ سن سولہ سو بیالیس عیسوی میں اور چوتھِی اور آخری مرتبہ سن سولہ سو پچاس عیسوی میں رونق افروز کشمیر ھوا۔ وہ تعمیرات کا دلدادہ تھا۔ اُس نے یہاں متعدد باغ لگوائے۔ محلات، حمام، بارہ دریاں وغیرہ تعمیر کروائیں اور اپنے اجداد کی تعمرات کی مرمت اور ان میں توسیع کروائی۔ اپنے جمالیاتی ذوق کی وجہ سے بھِی یہ مغل تاجدار بہت نیک نام ہے۔ اُسی نے بیس کروڑ کی لاگت سے تختِ طائوس بنوایا تھا۔  اور اُسی نے دنیا کا آٹھواں عجوبہ "تاج محل" آگرہ میں اپنی چاہتی ملکہ ممتاز محل کی وفات پر بطور نظرانہ محبت و عقیدت تعمیر کرایا تھا۔
شہنشاہ جہاں کی وفات پر اُس کا غایت درجہ کریم النفس، عادل، منصف مزاج، متقی اور دیندار بیٹا محی الدین اورنگزیب عالمگیر بادشاہ سریر آرائے سلطنت دہلی ھوا۔ وہ صرف ایک بار ہی سن سولہ سو پینسٹھ میں وارد کشمیر ھوا۔ اُس کے عہد کا معتبر ترین اور قابل ذکر واقعہ جو کشمیر کے متعلق ہے وہ سرور دو جہاں، آقاء کائنات، فخر موجودات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں گیسو کے موئے مبارک کا اس سرزمین میں لایا جانا اور عوام و خواص کی زیارت کے لِیے رکھا جانا ہے۔[۲] اجمال اس واقعہ کی یہ ہے کہ گیارھویں صدی ہجری کے نصف آخر میں دربار رسالت مدینہ منورہ کے مجاور سید عبداللہ سے سلطانِ وقت کسی بات پر سخت ناراض ہو گئے اور انہیں ضبطِ جائیداد کے بعد ملک بدر کر دیا گیا۔ اُن کی تحویل میں صرف تین تبرکات رہنے دیئے گئے۔ جن میں ایک تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں گیسوئے مبارک کا ایک بال تھا۔ دوسرا حضور پرنور کا امامہ پاک اور تیسرا تبرک سیدا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی سواری کا زین تھی۔ 

سید عبداللہ  اپنے حبشی نژاد غلام سید انس کی معیت میں ان تبرکات کو لیکر مغل شہنشاہ ہند شاہجہان کی خدمت میں دہلی وارد ہوئے۔ بادشاہ  اُن سے باکمال عقیدت و مروت پیش آیا اور بیجا پور کے نواح میں مختصر سی جاگیر گزارہ کے لیے سید صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ سید صاحب اب سرزمین ہند میں رہائش پذیر ہو گئے اور یہاں پر شادی کر کے مستقلاً مغلیہ خاندان سے ارادت مندی کے مراسم سے سرفراز رہے۔ اُن کے صاحبزادوں نے صاحب زادہ دارشکوہ سے مصابحت استوار کر لیا اور یوں وہ اس دیار میں پھلتے پھولتے رہے۔ سید صاحب کی وفات کے بعد یہ تبرکات اُن کے صاحبزادوں کی تحویل میں آ گئے۔ شاہجہاں کی وفات کے بعد اُس کے شاہزادوں کے مابین تختِ دہلی کے حصول کی جنگ ھوئی۔ جس میں دارا شکوہ کی شکست اور محی الدین اورنگزیب کی کامرانی نے حالات کا پانسا بدل دیا۔ دارا شکوہ کے ساتھ سیدزادوں کی مصابحت  کوئِی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ چنانچہ شہزادہ کے ساتھ ساتھ اُس کے ان مصاحبوں کا ستارہ بھی گردش میں آ گیا۔ اُن کی جائیداد بیجا پور میں ضبط کر لی گئی اور اس طرح سید زادوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ اُنہوں نے جائیداد کی بحالی کے لیے دہلی کا رخ کیا لیکن مغل دربار میں اُن کی ایک نہ چلی۔ اسی دوران ان کی ملاقات ایک کشمیری تاجر مقیم دہلی خواجہ نورالدین ایشہ بری سے ہوگئی۔ جِس سے انہوں نے اپنی حالت زار بیان کی اور امداد کے طالب ہوئے۔ وہ اس تاجر سے وقتاً فوقتاً قرض لیتے رہے اور اپنی گزراں نہایت عُسرت سے کرتے رہے۔ شدہ شدہ یہ رقم اس قدر زیادہ ہو گئِی کہ اُس کی ادائیگی سیدزادوں کے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھی۔ اپںے محسن کے احسان کے بدلے کے طور پر سید زادوں نے خواجہ نورالدین ایشہ بری کی خدمت میں موئے مبارک کا تحفہِ عظیم منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ خواجہ صاحب اس شرف سے پھولے نہ سمائے اور کمال اشیاق اور احسان مندی کے جذبہ سے اِس سعادتِ دارین کو مع حبشی غلام [۳] سید انش نامی جو اُن موئے مبارک کی حفاظت پر معمور تھا اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور اس کے فوری بعد دہلی سے براستہ لاھور ریاست جموں کشمیر کا رخ کیا۔ تاکہ اِس گراں قدر عطیہ غیبی کو اپنے اہلِ خاندان اور اہل کشمیر کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔ خواجہ صاحب کی دہلی سے روانگی کے کچھ دن بعد ہی پرچہ نویسوں نے اس اہم واقعہ کے بارہ  میں دربار دہلی کو مطلع کیا۔ جس پر شہنشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ خواجہ نورالدین ایشہ بری کو معہ موئے مبارک جلد از جلد جہاں کہیں بھِی ہو دربار شاہی میں حاضر کیا جائے۔ چنانچہ شاہی فرستادے خواجہ صاحب کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔

جاری ہے ۔۔۔۔
[۱] مکمل تاریخ کشمیر از محمدالدین فوق، صفحہ نمبر دو سو دو، صفحہ دوسو اٹھارہ
[۲] آئینہ کشمیر، مولفہ محمد عبداللہ قریشی
[۳] راہنمائے کشمیر، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر سولہ

نوٹ بلاگر کا کتاب کی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15