Hast-o-Bood Part-25

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ

مہارانی جنداں کور


اِس فوج نے گیارہ رمضان المبارک سن بارہ سو چونتیس ہجری کو ریاست کشمیر کو مکمل طور پر فتح کر کے سِکھ دربار کی ذیلی ریاست بنا دیا۔ سِکھ سرکار لاھور کی جانب سے مختلف ادوار میں یکے بعد دیگرے نو صوبیدار کشمیر پر حکمران رہے۔ جن میں مِسر  دیوان چند، دیوان دیوی داس، دیوان موتی رام، شہزادہ شیر سِنگھ [۱] سال اٹھارہ سو بتیس عیسوی تا سال اٹھارہ سو چونتیس عیسوی، دیوان ہری سِنگھ نلوہ، دیوان کرپارام شرائوں، اور[۲] مہاراجہ رنجیت سِنگھ کا خُوبرو اردلی بھمہ سِنگھ قابِل ذکر ہیں۔  موآخذکر کو سال اٹھارہ سو اکتیس عیسوی میں صوبیدار کشمیر مقرر کیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سِنگھ خوبصورت اور قدآور افراد کی قدر کرتا تھا۔ غالباً یہی سبب اُس کے اَردلی کے صوبیدارکشمیر بننے کا بنا۔ دربارِلاھور کی جانب سے کشمیر کا سِکھ اقتدار سال اٹھارہ سو انسیس عیسوی تا اٹھارہ سو چھیالیس عیسوی پر محیط ہے۔ مہاراجہ رنجیت سِنگھ سن اٹھارہ سو انتالیس میں مر گیا۔ اُس کے مرنے کے بعد اُس کی رانی راج کور کے بطن سے اُس کا فرزند کھڑک سِنگھ سال اٹھارہ سو انتالیس عیسوی تا اٹھارہ سو چالیس عیسوی بطور مہاراجہ تخت نشین ھوا۔

 مہاراجہ کھڑک سِنگھ پانچ نومبر اٹھارہ سو چالیس عیسوی کو فوت ھو گیا۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا عیاش، لاپرواہ اور نافرمان فرزند ولی عہد کنور نونہال سِنگھ وارِث تخت تھا۔ لیکن وہ اپنے صوفی منش و ایثار پیشہ سور گباشی والد کا نااہل فرزند تھا۔ مہاراجہ کھڑک سِنگھ کی وفات کے بعد اُس کے ولی عہد نونہال سِنگھ [۳] کے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آئے۔ جب اُسے والد اپنے والد کی موت کی اطلاع ملی تو وہ روتا ھوا حویلی کی دوسری چھت پر چڑھ گیا جہاں کسی نامعلوم ہستی نے اُسے دھپڑ رسید کیا۔ وہ خوفزدہ ھو کر سہارہ لیتے ہوئے نیچے اترا لیکن باوجود تلاشِ بسیار دھپڑ مارنے والے کی نشاندہی نہ ھو سکی۔ بعد میں وہ باپ کی ارتھی کے ہمراہ جم غفیر کی موجودگی میں قلعہ لاھور سے روانہ ھوا۔ ٹکسال دروازے کے عین نیچے کِسی نامعلوم فرد نے اُسے پوری طاقت سے پیٹھ پر لکڑی کی ضربِ شدید لگائِی جس سے شہزادہ غایت درجہ ہراساں نظر آنے لگا۔ اُس فرد کو پکڑنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مجمع میں کہیں سے بھِی دکھائِی نہ دیا۔ شمشان بھومی میں مہاراجہ کھڑک سنگھ کی بیوہ کو ستی ھونے سے پہلے راجکمار نونہال سِنگھ کو اشیر باد دینے کو کہا گیا اور مہاراجہ کا تاج اُتار کر اُسے پہنانے کی استدعا کی گئِی۔ لیکن رانی نے صرف اتنا کہا کہ "کرنی بھرنی ہے"، اور تاج بجائے ولی عہد کے سر پر رکھنے کے زمین پر پھینک دیا۔ کنور نونہال سِنگھ کی طبیعت بگڑی ھوئِی تھی اس لیے باپ کی ارتھِی ابِھی پوری طرح جلنے بھی نا پائی تھِی کہ وہ شمشان بھومی سے واپس لوٹ آیا اور مہاراجہ رنجیت سِنگھ کی سمادھی کے پاس پہنچتے ہی بے ھوش ہو کر گِر پڑا۔ اُسے باہزار دقت ھوش میں لایا گیا اور مذہبی مروجہ رسم کے مطابق دریائے راوی پر اشنان کے لیے لے جایا گیا۔ ابھی ڈیرہ گورو ارجن کے قریب ہی پہنچے تھَے کہ ایک بہت بڑا اور تن آور درخت ھولناک دھماکے کے ساتھ جڑ سے اکھڑ کر گِر پڑا۔ اِس ناگہانی بھیانک آواز سے کنور نونہال سِنگھ کے اوسان خطا ھو گئے۔ غایت جبر و صبر سے اُس نے دریائے راوی پر اشنان کیا اور راجہ گلاب سِنگھ ڈوگرہ کے پِسر اودھم سنگھ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ھوئے واپس محل کی طرف لوٹا۔ جب وہ دونوں روشنائی دورازہ کی چھت کے عین نیچے پہنچے تو چھت کا کچھ حصہ اُن دونوں اور اُن کے ہمراھیوں پر آن گرا۔ اُودھم سِنگھ تو موقع پر ہی جان بحق ھو گیا لیکن کنور نونہال سنگھ کو زخمی حالت میں قلعہ میں لایا گیا۔ جہاں اُس کی موت واقع ھو گئی۔ اور یوں ایک نافرمان بیٹا اپنے کیفرکردار کو پہنچا۔

کنور نونہال سِنگھ کی موت کے بعد مہارانی جنداں نے مہاراجہ رنجیت سِنگھ کے شہزادے دلیپ سنگھ کو سِکھ دربار لاھور سے حکمران تسلیم کروا کر خود اتالیق بن کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ لیکن مختلف سر کش سِکھ سردار کِسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ نیز اُن کی باہمی رقابت، ھوس اقتدار اور ریشہ دانیوں سے سِکھ مملکت کا شیرازہ منتشر ھو رہا تھا۔ اُدھر انگریز حاکم جو ستلج پار سے اپنی حریص نگاھوں سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ کہ جونہی ممکن ھو وہ سِکھ مقبوضہ پنجاب اور اُس سے ملحقہ زرخیز علاقہ کو اپنی مملکت میں توسیع کر کے شامل کر لیں۔ مہارانی جنداں کو بھی سِکھ سرداروں کی سرکشی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اُس نے ان عناصر کا قلعہ قمع کرنے کے لیے پہلے تو چکنی چپڑی باتوں سے انہیں شیشے میں اتارا اور پھر تجویز اُن کے سامنے رکھی کہ انگریز اُن کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے در پے ہیں اور بہادر سِکھ قوم کے لیے وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ستلج پار کر کے انگروں سے پنجاب کے ملحقہ علاقے چِھین کر سکھ حکومت میں شامل کر لیں۔ چنانچہ [۴] سکھ سرداروں نے انگریزی جمیعت کا غلط اندازہ کرتے ھوئے اپنی عاقبت نا اندیشی کا ثبوت مہیا کیا اور دسمبر سن اٹھارہ سو پنتالیس عیسوی میں انگریزی مقبوضہ علاقہ پر ہلّہ بول دیا۔ اُس زمانہ میں انگریزی مقبوضہ علاقہ کا گورنر جنرل لارڈ ھارڈنگ تھا۔ باالآخر انگریزی فوج نے سِکھوں کو بمقام سبرائوں شکستِ فاش دی اور سِکھ سورما سر پر پائوں رکھ کر دارالسلطنت لاھور کی طرف پسپا ھوئے۔ اُن کے تعاقب میں انگریزی افواج بھی پنجاب میں گُھس آئیں۔ باالآخر دس فروری سن اٹھارہ سو چھیالیس عیسوی کو صلح نامہ تحریر ھوا جس کی رو سے لاھور میں لارڈ ہنری لارنس کو برطانوی ریزیڈنٹ مقرر کیا گیا اور گورنر جنرل کے بھائی لارڈ جان لارنس کو جالندھر دواب کا کمشنر بنایا گیا۔ یہ علاقہ سِکھوں نے اسی عہدنامہ کی رو سے انگریزی عملداری میں شامل کرایا۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔ 

[۱] مکمل تاریخ کشمیر، حصہ سوئم، مولفہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر اکیس
[۲] مکمل تاریخ کشمیر، حصہ سوئم، مولفہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر انتیس
[۳] مکمل تاریخ کشمیر، حصہ سوئم، مولفہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر اکاون تا ترپن۔
[۴] ایڈوانچرز آف این آفیسر ان دی سروس آف رنجیت سِنگھ۔ ایچ ایم لارنس 


نوٹ بلاگر کا کتاب کی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15