Hast-o-Bood Part-29

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ


Sehensa Valley 

راجہ سہنس پال ایک ایک مدبر، پیش بین اور وسیع النظر انسان تھا۔ اُس نے اپنے خداداد فراست سے بھانپ لیا کہ قدرت اُس پر مہربان ہے اور تاج سلطانی کی راہیں اُس کے لیے خود بخود ہموار ہو رہی ہیں۔ چنانچہ اُس نے کمال دانائِی اور وقار سے مہتروں سرداروں کو دان پُن کرتے ھوئے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور انہیں ہر طرح سے یقین دلایا کہ اُن کی مکمل طور پر رکشا رکھے کرے گا۔ اُس نے ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے موجودہ گائوں میں اپنے کچھ ساتھیوں کو چھوڑ کر خود مہترعملداروں کے پہاڑی سلسلہ کے گائوں نکہ ٹرانہ میں اقامت اختیار کرے لے گا۔ اپ وہ نئی جگہ پر معہ اپنے معتبر معتقدین آباد ھو چکا تھا۔
راجہ سہنس پال نے یہاں بھِی اپنی روایتی رواداری، محبت و آشتی، راج نیتی اور داد وہش سے اہلِ موضع اور اردگرد کے ساکنان علاقہ کے دلوں کو رام کر لیا اور جلد ہی عوم و خواص اُس کے گن گانے لگے۔ حتی کے رفتہ رفتہ مہتر سرداروں کا اثرورسوخ زائل ھوتا گیا۔ راجہ سہنس پال کسی مناسب وقت کے انتظار میں رہا کیونکہ گکھڑ سرداراپنے پروردہ مہتروں کے پشت و پناہ ہیں۔ اِسی دوران سلطان محمد غوری اور سلطان قطب الدین ایبک نے دو مختلف اطراف سے گکھڑ سرداروں کی مملکت پر حملے کر دیے۔ چنانچہ سہنس پال نے فی الفور مہتروں کی سرکوبی کے کے اُن کا اُس علاقہ سے مکمل طور پر قلع قمع کر دیا۔ اور اِس پر مکمل دسترس حاصل کرتے ھوئے علاقہ کا خودمختار راجہ بن گیا۔ کیونکہ باوجود مہتروں کی استدعا کے گھکڑ سردار خود کشمکشِ حیات وموت میں گرفتار ھونے کی وجہ سے اُن کی امداد کرنے سے قاصر رہے۔

اب راجہ سہنس پال نے موضع سائنلہ کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ یہاں آج بھی ایک پرانی باولی اور بوسیدہ قلعہ کے کھنڈرات کے آثار موجود ہیں۔ قلعہ سے ملحق ایک بزرگ مستان شاہ ولی کا مزار ہے اور ایک پرانا بوہڑ کا درخت ایستادہ ہے جس کے نیچے ایک لمبا عمودی پتھر نصب ہے جس پر سیندور رکھ کر منگرال حکمران اور اُس کے ولی عہد کو ماتھے پر تلک لگایا جاتا تھا۔ اُس عظیم راجہ کے وقت کے یہ آثار اُس کی شخصیت، عظمت اور راج نیتی کے شاید ہیں۔ اِس موضع سے چند فرلانگ دور راجہ سہنس پال نے اپنے نام پر سہنسہ نامی ایک بستی آباد کی جو ایک انتہائی خوبصورت، سرسبز اور وسیع میدان پر بسائے جانے کی صورت میں ہر آنے والے کی نوجہ اپنی جانب متوجہ کراتی ہے؛

کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایجاست 

آج بھی منگرال قوم کی غالب اکثریت وادی سہنسہ اور اُس کے قرب و جوار میں اقامت گزار ہے۔ یہ علاقہ مشرق میں دریائے پونچھ اور مغرب میں دریائے جہلم کے درمیان واقعہ ہے [1]۔ اور شمال و جنوب کی جانب چیل دار سرسبز اور خوش منظر پہاڑوں اور وادیوں سے گھرا ھوا ہے۔ اِس علاقہ میں کم و بیش اسّی دیہات آباد ہیں جن کی غالب اکثریت کھیتی باڑی کرتی ہے اور جو قوم منگرال راجپوت سے تعلق رکھتی ہے۔ سال 1955ء میں اس علاقہ کو منگرال قوم کی آبادی پیسنٹھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ اُسی سال کی مرتّبہ مہرست ووٹران کے مطابق بالغ حقِ راہِ دہی کی بنا پر قوم منگرال کے اکتیس ہزار ووٹرز تھے اور اس طرح اس قوم سے اس علاقہ کےدو ممبران حکومتِ آزادکشمیر کی اسمبلی میں نمائندگی کے لیے منتخب ھوئے۔ 

انتظامی امور کے تحت یہ علاقہ تین ذیلوں یعنی ذیل سہنسہ، ذیل کینی اور ذیل اٹکورہ میں منقسم کیا گیا۔ سال 1972 ء سے تحصیل کوٹلی منگرالاں کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ جس سے قدیم کوٹلی منگرالاں سے ملحق نئی عمارات، سرکاری اور  غیر سرکاری دفاتر اور دیگر سہولتیوں کا اضافہ ھو گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے بعد جہلم، منگلا، میر پور کے راستہ گلپور، کوٹلی ، پتن، کہوٹہ کے راستے سے اِس علاقہ کو صوبہ پنجاب {پاکستان} کے دونوں اطراف سے بذریعہ پُختہ سڑک سے ملا دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سڑک بے توجگی کی وجہ سے متعدد جگہوں سے مرمت طلب ہے۔ لیکن پھر اِس علاقہ کو دوسری دنیا سے اور متعدد مقاماتِ ریاست جموں کشمیر سے ملانے کا موثر ذریعہ ہے۔ موٹر، بس، ٹرک سے مسافر اور سامان تجارت کے جانے اور لے جانے کی سہولت بہم پہنچا دی گئی ہے جو بہر حال غنیمت ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

[1] ۔۔۔ ہسٹری آف دی پنجاب ہل اسٹیٹ، والیم 1، از جے ہیچیسن، جے پی ایچ ووگل۔


نوٹ: بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

  1. سائنلہ کےبارےمیں جو گفتگو بلاگ میں ہوئی ہےوہ حقائق پر مبنی ہے۔میں نےاپنےچند بھائیوں کےساتھ وہاں کاسفر کیا ہے۔

    ReplyDelete
  2. بہت اچھی کاوش ہے نزیر بھائی کی بہت مفید طریقے سے معلومات کی فراہمی ہے اپنے دوست احباب کے لیے ۔

    ReplyDelete
  3. شکریہ احباب. یہاں کہیں بھی میں اپنا نام استعمال نہیں کر رہا. یہ پبلک پراپرٹی ہے.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں