Hast-o-Bood Part-11

باب دوم 

وطنیت اور قومیت کا تصور



صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کے ادوار کے  دوران اور بعدہُ بھی ہجرت کا سلسلہ متعدد اقوام میں بالعموم اور اہل اسلام میں بالخصوص جاری رہا۔ طارق بن زیاد کا اندلس کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اپنے اور اپنے ہمراہیوں کے سفینوں کو نظر آتش کر دینا بھی ثابت کرتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے: 

ہر ملک ملک ماست کہ ملکِ خدائے ماست

اس لیے اگر اسلام میں محدود وطنیت کا تصور مذہبی اساس کے طور پر موجود ہوتا تو صحابہ کرام اولاً مکہ مکرمہ سے اور ثانیاً مدینہ طیبہ سے دنیا کے مختلف گوشوں میں دین حق کے بلیغ اور دین حق کے سربلندی کے لیے نہ نکل کھڑے ہوتے۔ یہود کا سرزمین فلسطین میں چار دانگِ عالم سے ہجرت کر کے اگھٹا ہونا اور پاک بھارت تقسیم کے نتیجہ میں آبادی کی منتقلی بھی نظریہ وطنیت کی نفی کے کُھلے ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ 

اگر اسلام میں ہجرت پر وطنیت کو برتری دی گئی ہوتی اور حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مولد مکہ مکرمہ میں ہی رہائش پذیر رہتے تو امت مسلمہ صرف ایک خطہ میں محدود ہو کر رہ جاتی اور ان پر حقیقت کسی طرح بھی آشکار نہ ہوتی کہ؛

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

ہجرت بلاشبہ شرف انسانیت کے حصول کا زینہ ہے اور سفر وسیلہِ ظفر۔ موجودہ سائنسی دور میں تسخیر کائنات کا محرک اور نئی بستیاں اور ویرانے تلاش کرنے کا جذبہ انسانی آبادکاری کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا احساس ہی تو ہوتا ہے۔ ورنہ اگرانسان  وطنیت کے چکر میں پھنس کر خود کو اپنے موجودہ سکونتی حدود میں مقید کر لیتا ہے تو اس کی زندگی کولہو کے بیل کی طرح گزر جاتی ہے۔ اسے مختلف ممالک اور اقوام کی ترقیات اور اشیاء احتیاج سے قطعاً خبر نہ ہوتی اور اس کی اپنی ترقی کی راہ میں مسدود ہو جاتیں۔

ان مشاہدات سے یہ فطری نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اسلام میں مخصوص وطنیت کا کوئی کڑا نظریہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ جہاں بھی اس کے پیرو اپنی زندگی خدا اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں گزارنے کی آزادی سے ہمکنار ہو سکیں وہی ان کا وطن ہے۔ اندریں حالات ہجرت ایک مستحسن اقدام ہے اور اسے مذہب اسلام کی نظریاتی اور عملی اعانت حاصل ہے۔ شاعر مشرق [علامہ اقبال] نے اسی سلسلہ میں کیا خوب کہا ہے۔

نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

اب اسلام میں نظریہ قومیت اور اس کے رجحانات کا تجزیہ کیجئے۔ جس سے اس کتا ب کی مذہبی نقطہ نظر سے تدوین متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے اس اقدام اور جسارت کی اساس سب سے پہلے اس دلیل پر قائم ہے کہ خود خالق حقیقی نے مختلف ادوار میں مختلف اقوام میں علحدہ علحدہ اور فرداً فرداً انبیاء علیہ السلام اور رسول مبعوث فرمائے۔  اگر قومیت کے نظریہ کا فروغ مشیت ایزی کے خلاف ہوتا تو تمام ہستی کے لیے ایک ہی "ملت آدم" کی تخلیق ہوتی اور حضرت نوح، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت سلیمان، حضرت دائود، حضرت موسی، حضرت عیسی [سلام اللہ علیہ اجمعین] اور کود سرور دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم [فدا ابی و امی] علحیدہ علحیدہ خطہ اراضی اور اقوام میں نہ بھیجےجاتے۔ اور مختلف آسمانی کتابیں اور صحیفے مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی اصلاح کے لیے قادر مطلق کی طرف سے وحی نہ کیے جاتے۔

جاری ۔۔۔۔۔۔

Comments

  1. Replies
    1. بہت علمی اور اہل ذوق کےلیے بڑی اعلی معلومات ہیں ہست و بود میں

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں