Hast-o-Bood Part-13
باب دوم
وطنیت اور قومیت کا تصور
وطنیت اور قومیت کا تصور
چنانچہ اس زمرہ میں ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت ایک کھلی کتاب ہے۔ آپ کی مکی اور مدنی زندگی کے سینکڑوں واقعات شواہد ان خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ذیل میں چند ایک مثالیں قارئین کے لیے باعث دلچسپی اور آگہی میں ممد ثابت ہوں گی۔
ایک موقع پر بنو ثقیف کا ایک وفد جو اس قوم کے معززین پر مشتمل تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں باریاب ہوا۔ یہ وفد مدینہ طیبہ میں ۹ ہجری حاضر ہوا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ رض نےعرض کی کہ یہ میری قوم [قبیلہ] کے افراد ہے اگر اجازت ہو تو انہیں خاطر مدارات کے لئے اپنے پاس ٹھہرا لوں، جواباً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میں تمہیں اپنی قوم کی تعظیم و تکریم سے منع نہیں کرتا لیکن انہیں ایسی جگہ ٹھہرائو جہاں قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑے" چنانچہ جناب مغیرہ بن شعبہ رض نے اپنی قوم کے ان افراد کی حتی المقدور تحریم و تکریم کی۔
غزوہ بدر کے اسیروں میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا سیدنا عباس بھی شامل تھے۔ وہ ابھی مشرف بہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ دیگر اسیران مکہ کے ہمراہ ان کی مشقیں بھی کس دی گئیں اور اسی حالت میں وہ رات بھر درد کی شدت سے کراہتے رہے۔ حضور رحمت دو عالم ان کی آواز سن کر بے چین ہو گئے اور آپ نے اس وقت تک آرام نہ فرمایا جب تک کہ حضرت عباس رض اور ان کے طفیل جملہ اسیران کی مشکیں ڈھیلی نہ کر دی گئیں اور اس طرح کا رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی مثال قائم فرمائی گئی۔ جو حضور کی شفقت سراپا رحمت ہونے کی بھی دلیل ہے حالانکہ وہ سب لوگ دین اسلام اور اس کے پیروکاروں کا قلع قمع کرنے آئے تھے۔ اپنوں سے صلہ رحمی کا ایک اور واقعہ فخرموجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے خانوادہ سے وابستہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص حالت کفر میں معہ مال تجارت مدینہ طیبہ میں گرفتار ہوئے۔ مہاجر و انصار اللہ نے ان کا مال و اسباب آپس میں بانٹ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا ابو العاص کا تعلق جو مجھ سے ہے وہ سب کو معلوم ہے [وہ حضور کی صاحبزادی حضرت زینب کے شوہر تھے] اس کا جو مال تمہیں ملا ہے وہ بے شک اللہ کے دین کا ہے لیکن اگر یہ مال تم اسے لوٹا دو تو میں اسے پسند کروں گا لیکن اگر تم ایسا نہ کرنا چاہو توتم اس مال کے زیادہ حقدار ہو۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے صحابہ نے اسی ان تمام کا تمام چھینا ہوا مال واپس کر دیا۔
انہی ابوالعاص کی آزادی کی خاطر ان کی منکوحہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بی بی زینب رض نے اپنی ماں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی طرف سے دیا گیا جہیز میں ہار فدیہ میں بھجوایا تو حضور سردار دو جہاں کے دل میں اپنی محبوب زوجہ کی یاد تازہ ہوگئی اور فرطِ غم سے حضور آبدیدہ ہ گئے یوں آپ کے اس داماد کو جو ابھی حالت کفر میں ہی تھے نہ صرف رہائی مل گئی۔بلکہ وہ طلائی ہار بھی سیدہ بی بی زینب کو واپس کر دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے بیسیوں واقعات صلہ رحمی اور محبت کا واضح ثبوت مہیا کرتے ہیں اور ہمارے لیے اپنوں سے اظہار وفاداری اور صلہ رحمی کی راہیں متعین کرتے ہیں۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر فخر موجودات سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ اور دیگر مفتوحین سے نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی جو اساس مہیا فرمائی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اللعالمین، عفو اور جودوسخا پر دلالت کرتی ہے۔ قیامت تک کے لیے اپنوں اور غیروں سے فیاضانہ سلوک کی مقتضی ہے فتح مکہ کے لیے لشکر اسلام کو قومیت وار ترتیب دیا جاتا ہے اور اپنی اپنی قوم کے سرداروں کے زیرقیادت اسی ترتیب سے مکہ معظمہ کی طرف رواں دواں ہے یوں اسلامی سیادت میں اس قومی یک جہتی کا مشاہدہ حضرت عباس رض کی وساطت سے ابوسفیان سردار قریش کو کرایا گیا جس سے اس کے دل میں اسلامی عظمت نقش ہوئی۔ لشکر اسلام کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ قبیلہ بنو سلیم اپنے سردار عباس بن مرواس سلمی میں سرتا پا آہن پوش بطور مقدمہ الجیش، بنوں جہنیہ کی اسلامی پلٹن اپنے سردار عقبہ بن عامر الجہنی کی سرکردگی میں، قبیلہ مزینہ کی فوج ظفر موج اپنے سردار نعمان بن منذر کی رہنمائی میں، بنوتمیم اپنا سردار اقرع بن جانس کی قیادت میں، اور بنو حمیرا اپنے سالانہ وحیہ کلبی کی کمان میں کفار مکہ کی سرکوبی کے لیے، بنو کندہ اپنے سردار مقدار بن اسود کی رہنمائی میں، اور بنوعیس اپنے سردار عمار بن عیسی کی زیرعَلم، خود بنو ہاشم اپنے سردار فضل بن عباس کی قیادت میں آگے بڑ رہے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر قبائل جوسبھی دین اسلام کی برکتوں سے مشرف ہو چکے تھے اپنے اپنے ہم قوم [قبیلہ] سالاروں کی نگرانی میں مکہ کی طرف چلے جا رہے تھے تھے۔
جاری ۔۔۔۔
ویری نائس گڈ ورک راجہ نذیر صاحب
ReplyDeleteشکر
Deleteاپنوں کا احترام اسلام نے بھی سکھایا ہے
ReplyDeleteراجہ نذیر صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے
شکریہ
ReplyDelete