Hast-o-Bood Part-26
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
مہاراجہ گلاب سِنگھ
سِکھ افواج میں کمی کر کے بیس ہزار پیادہ فوج اور بارہ ہزار سوار کر دی گئی۔ اور اُن کے خلاف ڈیڑہ کروڑ روپیہ تاوانِ جنگ ڈالا گیا۔ خزانہ چونکہ بالکل خالی تھا اِس لیے تاوانِ جنگ کی ادائیگی سِکھ حکومت کے لیے ایک بہت بڑی دردسری تھی۔ اِس موقع پر سردار گلاب سنگھ ڈوگرہ کی ابن الوقتی، عیاری اور پیش بینی کام آئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں بطور سپہ سالار حکمرانی کا نشہ اور فرمانروائی کا چسکہ حصولِ مقصد کے لیے اُسے انگریزوں کی خوشنودی میں نظر آیا۔ اُس نے انتہائی چاپلوسی اور عیاری سے اُن سے معائدہ امرتسر سولہ مارچ سن اٹھارہ سو چھیالیس عیسوی طے کیا اور پچتر لاکھ روپیہ نانک شاہی کے عوض ریاستِ جموں کشمیر کے اقتدارِ اعلی کا پروانہ حاصل کر لیا۔ اور یوں ایک نام نہاد جمہوریت اور سچائی پسند انگریز حکمران قوم جنہوں نے ریشہ دانیوں، سازشوں اور پھوٹ ڈالنے سے مسلمانوں کی حکومت کا ہندوستان میں قلع قمع کیا تھا۔ اِس غالب مسلم اکثریت کے خطہ جنت نظیر کو سودہ بازی سے بغیر عملی تسلّط حاصل کیے سِکھ ڈوگروں کے ہاتھ اونے پونے فروخت کر دی اور بقول حضرت اقبال؛
دہقان و کشت وجود بیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
اب مہاراجہ گلاب سِنگھ ریاست جموں و کشمیر کا بلا شرکت غیرے مالک اور اُس میں آباد پچانوے فی صد مسلم آبادی کا مختارِ کُل تھا۔ مسلمانوں کے لیے گائو کشی، آزادانہ اوائے فرائض، مذہبی اور حکومتی کارکنوں کی ستم رانی کے خلاف آواز بلند کرنا قطعی بند تھا۔ بے گار اور محنت کی اجرت کی عدم ادائیگی حکمران طبقہ کے حقوق میں شامل تھی۔ رعایا کی عفت و عصمت حکمران ٹولہ کے رحم و کرم پر تھی۔ مسلم کسان سال بھر محنت کرنے کے باوجود خود پیٹ بھر غلہ اور شالی حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ اور ہرکس زبانِ بے زبانی سے یوں گویا تھا کہ ؛
ہم آہ بھِی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ھوتا
مہاراجہ گلاب سِنگھ کی عملداری کے دوران ریاست کا حدود اربعہ کچھ یوں تھا۔ شمال میں کوہ کیولن و کوہ قرارقرم کے علاوہ ترکستان، جنوب میں پنجاب کے اضلاع جہلم، گجرات، سیالکوٹ، گورداسپور، مشرق میں ریاست ھائے چمبہ، تبت، نیپال اور مغرب میں کوہِ ہندوکش اور افغانستان، اور ریاست کا کل رقبہ اکاسی ہزار مربع میل تھا۔ جس میں لداخ اور گلگت کا تیرہ ہزار مربع میل رقبہ بھی شامل تھا۔ پوری ریاست دو صوبوں جموں اور کشمیر میں منقسم تھی۔ صوبہ جموں میں اضلاع جموں، کٹوعہ، اودھم پور، ریاسی اور میرپور شامل تھے جبکہ صوبہ کشمیر میں اضلاع سرینگر، اننت ناگ، بارہ مولا اور مظفر آباد تھے۔
ریاست کے دلفریب قدرتی نظاروں، مفرج آب و ھوا اور دیگر محاسن کے علاوہ شہنشاہ جہانگیری میں رقمطراز ہے کہ ملک کشمیر کے باشندے سادگی، شعار، حاضر دماغ، صحت مند، حسین و جمیل، فہیم اور ذکی الحسن ہیں۔ کئی من وزن پشت پر اُٹھا کر ہر موسم میں پہاڑی اور خطرناک رستوں کو بہ آسانی عبور کرنے پر قادر ہیں۔ کِسی قسم کی محنت و مزدوری کو عار نہیں سمجھتے، عورتیں اور مرد پشیمہ کے لمبے لمبے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن کو ملکی زبان میں پُٹو کہتے ہیں۔ یہاں پھلوں کی بہتات ہے۔ نمک کمیاب ہے اور ہندوستان سے برآمد ھوتا ہے۔ قحط و طغیانی کشمیر کا مقدر ہے۔ ہندو گھرانوں میں ہر سال تیرہ بھادوں کی رات کو چراغاں کا خاص اہتمام ایک تہوار کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ [۱] ۔ کیونکہ عام روایت ہے کہ اُسی رات دریائے بُہت [جہلم] پیدا ھوا تھا۔ کشمیر کی بہار کے علاوہ اِس کی خزاں بھِی ایک منفرد شانِ دلربائی کی حامل ہے۔ شہنشاہ اکبرِ اعظم [۲] نے اسی موسم میں سرینگر کے باغات میں فصل سیب، شفتالو، انگور اور درختانِ چنار دیکھ کر ہی خوب کہا؛
ذوقِ فنا، نیا فتنہ، در نہ در نظر
رنگیں ترانہ، بہار بود، جلوہ خزاں
لیکن اس جنت اراضِی کو ڈوگرہ دورِ استبداد میں جس لوٹ کھسوٹ بیگار اور اخلاقی پستی کا نشانہ بنایا گیا۔ اِس نے ہر آنے والے حکمران کے نِت نئے چرکوں کے لیے راہ ہموار کی اور اِس طرح چوٹ پر چوٹ کھائے ھوئے مظلوم اور بے بس کشمیریوں کی عزت نفس بیدار ھوتی گئی۔ مہاراجہ گُلاب سِنگھ کے دور حکومت میں غیر مسلم رعایا سے امتیازی سلوک کیا جا کر اُنہیں اوّل درجہ کا شہری شمار کیا جاتا۔ جبکہ مسلمان رعایا جو غالب اکثریت میں تھی۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی محنت اور خدمت پر مجبور تھی۔ اُن کی حیثیت ڈھور ڈنگر سے بھی کمتر تھی۔ مہاراجہ گُلاب سِنگھ کی وفات سن اٹھارہ سو ستاون عیسوی کے بعد اُس کا پسر مہاراجہ رنبیر سِنگھ گدی نشین ھوا۔ اِس کے تین پسران پرتاب سِنگھ، رام سِنگھ اور امر سِنگھ تھے۔ مہاراجہ رنبیر سِنگھ کی وفات سن اٹھارہ سو پچاسی عیسوی میں ھوئی۔ وہ بھی اپنے والد مہاراجہ گلاب سنگھ سے چنداں مختلف نہ تھا۔ رعایا بالخصوص مسلمان اُس کے زرخرید غلام تھے اور ریاست کا سول انتظام یا فوج میں اُن کو کوئی قابلِ ذکر اقتدار حاصل نہ تھا۔ اُن کی عام حیثیت شودروں سے بھِی کمتر تھی۔ مہاراجہ رنبیر سِنگھ کے بعد اُس کا بڑا فرزند مہاراجہ پرتاب سِنگھ حکمران بنا۔ وہ ایک جابر، متعصب، سخت گیر اور رعایا کا خون چوسنے والا راجہ تھا۔ وہ عیش پرست اور ھوس ناک حکمران تھا۔ رعایا اُس کے دست نظاول سے سخت نالاں رہی۔ چنانچہ اِسی زمانہ میں زیرِ زمین سیاسی سرگرمیوں کا ڈوگرہ حکومت کے خلاف آغاز ھوا۔ مہاراجہ پرتاب سِنگھ لاولد تھا۔ اُس کا دوسرا بھائی رام سِنگھ بھِی لاولد فوت ھو چکا تھا۔ البتہ تیسرے متوفی بھائی امر سنگھ کا ایک پسر ہری سنگھ نامی تھا۔ جو اپنے تایا کی وفات پر سال انیس سو پچیس عیسوی میں گدی نشین ھوا۔
اِسی زمانہ میں اندرونِ ریاست نیشنل کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا چکا تھا جِس میں علاوہ مسلم قوم کشمیری پنڈتوں کی بھِی معتدبہ تعداد زیرِ قیادت پنڈت پریم ناتھ بزاز شامِل تھی۔ جو کشمیر میں حقوق انسانی کے تحفظ اور شخصی آمرانہ حکومت سے آزادی کی جدوجہد، شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں جاری رکھے ھوئے تھے
جاری ہے ۔۔۔۔
[۱] شاہی سیر کشمیر، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر گیارہ
[۲] شاہی سیر کشمیر، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر بارہ
نوٹ بلاگر کا کتاب کی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment