Hast-o-Bood Part-22

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ

راجوری 

اس پر یعقوب چِک نے اُس پر اپنے خلاف شمس چِک اور مغل حکمران ہندوستان کے ساتھ ساز باز کا جھوٹا الزام لگا کر شہید کر دیا اور اسی بر بس نہ کیا بلکہ اس کی برہنہ لاش کو ہاتھی کی دم سے ساتھ باندھ کر تمام شہر میں تشہیر کرائِی گئی۔ قاضی موسی شہید سنّی عقیدہ کے حامل ملک کے قاضی القضات تصّور ہوتے تھے۔ اُن کا قصور صرف اس قدر تھا کہ انہوں نے یعقوب چِک کے ایماء کے مطابق یہ فتوے دینے سے انکار کر کیا کہ موّذن لوگ آذان میں کلمہ "علی ولی اللہ" شامل کیا کریں کیونکہ وہ ایسا کرنا خلافِ شرح محمدی سمجھتے تھے۔ چِک حکمرانوں کے بھڑھتے ہوئے ظلم و استبداد سے تنگ آ کر کشمیر کے دو فرزند بابا داود خاکی اور شیخ یعقوب صرفی آخری سلطان یوسف شاہ چِک کے زمانہ میں سال پندرہ سو پچاسی عیسوی میں دربار دہلی کے مغل فرمانروا [۱] شہنشاہ جلال الدین اکبر بادشاہ کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئے اور سنّی مسلم رعایا کشمیر کی داستانِ خونچکاں اور اُن کی تحقیر کے متعدد واقعات بادشاہ کے گوش گزار کیے۔ جس سے وہ بے حد متاثر ہوا اور اپنے سردار بہادرمان سنگھ کو ریاست پر فوج کشی کا حکم دیا۔ لیکن یہ مہم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ اس کے بعد مغل بادشاہ نے دوسری مہم میر قاسم بحری اور مرزا یوسف کی سرکردگی میں بجھوائِی جس نے فتح حاصل کر کے خاندانِ چِک کی ستائیس سالہ حکومت کی جبر و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔ ان مغل سرداروں نے دہلی واپس پہنچ کر کشمیر کے قدرتی مناظر، حسن اور صحت بخش آب و ہوا کا کچھ ایسے دلفریب انداز میں تذکرہ کیا کہ شہنشاہ اکبرِاعظم کو اس خطہ جنت نظیر کو دیکھنے کا بے حد اشتیاق ہوا۔ 

چنانچہ وہ پہلی بار پندرہ سو ستاسی عیسوی میں پھر سال پندرہ سو نوے عیسوی میں اور تیسری بار سال پندرہ سو اٹھانوے عیسوی میں کشمیر کی سیاحت اور لطف اندوزی کے لیے گیا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے ولی عہد شہزادہ سلیم کو بھی لیتا گیا۔ اپنے قیام کے دوران ہر شہنشاہ نے وہاں جدید تعمیرات، باغات اوربارہ دریاں بنوانے کا اعادہ کیا اور رفاع عامہ کے کام کیے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے بعد شہزادہ بطور شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر تخت دہلی پر رونق افروز ہوا۔ اپنے عہد میں وہ چار مرتبہ عازم کشمیر ہوا۔ پہلی مرتبہ وہ سن مارچ سولہ سو بیس عیسوی میں کشمیر گیا۔ پھر سن سولہ سو تئیس عیسوی میں دوسری مرتبہ کشمیر کی سیر کی۔ تیسری دفعہ وہ سن سولہ سو پچیس عیسوی میں یہاں فروکش ہوا۔ اور چوتھِی اور آخری بار شہنشاہ جہانگر نے سن سولہ سو سینتالیس عیسوی میں کشمیر کی یاترا کی۔ اس بار سفر سے واپسی کے دوران اس کی طبیعت یک لخت بگڑ گئی۔ اور بماقم راجوری [۲] اس نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس کا مقولہ تھا کہ کشمیر بادشاہوں کے لیے گلشنِ عشرت، غربا اور درویشوں کے لیے خلوت کدہ، دلکشا ہے۔ وہ اکثر کشمیر کے تصور سے شاد کام رہا کرتا اور دہلی کے قیام کے دوران بھِی اس کا دل کشمیرکے سبزہ زاروں، پہاڑوں اور دریائوں کے علاوہ اس کے حُسن و طُرفہ آب و ہوا کی طرف مائل رہتا۔ اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتا تھا۔

اگر فردوس برروئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

راجوری میں شہنشاہ جہانگیر کی نعش کو ایک تابوب میں بند کر کے ایک تابوت کی صورت میں لاہور لایا گیا اور اس کی ملکہ نور جہاں نے اسے شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر {جسے موجودہ صورت میں اس کے لڑکے شاہ جہاں نے تعمیر کیا} میں آسودہ خاک کیا۔ مغلیہ دور میں کشمیر میں خاصی تعمیراتی اور ملکی انتظام و انصرام میں ترقی ہوئی۔ سلطنتِ دہلی کی طرف سے یہاں بذریعہ تقرری صوبیدرانِ حکومت کی جاتی تھی۔ اور اسے مملک ہند کا ایک صوبہ شمار کیا جاتا تھا۔

جاری ہے ۔۔۔۔

[۱] مکمل تاریخ کشمیر جلد دوئم، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ ایک سو پچتر
حکایات کشمیر، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر ستانوے
[۲] مکمل تاریخ کشمیر جلد دوئم، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ ایک سو بانوے

نوٹ بلاگر کا کتاب کی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
 

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15