Hast-o-Bood Part-28
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
Maharaja Sri Sir GANGA SINGHJI Bahadur
Courtesy of Bekaner Website
راولپنڈی سے ایک آرام دہ اور قدرتی مناظر سے بھر پور راستہ کشمیر کو جاتا ہے۔ راولپنڈی سے بہارہ کہو تیرہ میل، بہارہ کہوسے تریٹ بارہ میل، تریٹ سےکوہ میری سنی بنک ساڑھے تیرہ میل، سنی بنک سے پھگواڑی چودہ میل، بھگواڑی سے کوہالہ ساڑھے چودہ میل، کوہالہ سے دولائِی بارہ میل، دولائی سے دومیل بارہ میل، دومیل سے گڑھی چودہ میل، گڑھی سے چکوٹھِی بتیس میل، چکھوٹی سے اوڑی تیرہ میل، اوڑی سے رام پور ساڑھے تیرہ میل، رام پور سے بارامولا چودا میل، بارا مولا سے پٹن سترہ میل، اور پٹن سے سرینگر سترہ میل۔
منگرال قوم کی تاریخ ماضِی کے دھندلکوں اور وقت کی گرد سے اٹی پڑی ہے۔ اِس قوم کے ذی مرتب حکمرانوں نے دیگر سابقہ ریاستی سرداروں کی طرح اپنے بزرگوں کے شجرہ نسب کی حفاظت کے لیے ریاست کے چیدہ چیدہ داستان گو اور میراثی قوم کے افراد کا انتخاب کیا۔ جنہون نے شجرہ قوم کو حفظ کرنے کے علاوہ اہمیت کے حامل شواہد کو کتب کی صورت میں اپنے سینوں میں محفوظ رکھا۔ اِن میں سے سر فہرست رائے قادر مراثیراثی اور رائے دنو میراثی ہیں[۱] جن کو منگرال راجائوں نے جاگیرات عطا فرمائیں اور جن کے بعد ان کی اولادیں قدیم منگرال حکمرانوں کے نسب نامے اور متعدد واقعات ازبر رکھے ہوئے ہیں۔ اور اپنے باب دادا کے حاصل کردہ، جاگیروں پر آج بھی متصرف ہیں۔ اسی میراثی خاندان کے ایک فرد صاحب دین سے سال انیس سو پچپن میں میر پور ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز راجہ محمد یعقوب طارق نے {جو آجکل موضع لہڑی میں ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں۔} قوم منگرال راجپوت سکونتی علاقہ کوٹلی منگرالاں کے بارہ میں معلومات حاصل کر کے ماہنامہ نظام تعلیمات سیالکوٹ شمارہ نومبر انیس سو پچپن عیسوی میں ایک مضمون بعنوان "وادی سہنسہ تحصیل کوٹلی ضلع میرپور" شائع کروایا۔ جس سے تاریخ منگرالاں پر کافی حد تک روشنی پڑتی ہے۔ موّلف نے بھی میرپور، گلپور، کوٹلی منگرالاں کا دورہ کیا اور منگرال قوم کے متعدد شخصیتوں اور معتبرین سے اس بارہ میں تصدیق و تحقیق کے بعد حقائق ذیل کا اعادہ کرنے کے قابل ہو سکا ہے۔ اس میں میجر الف خان صاحب، سکنہ میر پور، راجہ محمد صدیق خان ایڈووکیٹ میر پور، کرنل راجہ محمد محمود خان سکنہ کھٹکلی متصل گلپور لیفٹیننٹ کرنل راجہ محمد سرور صاحب قابلِ ذکر ہیں۔
اُوپر بیان کردہ ماخذ کے مطابق منگرال قومیت کا آغاز اِس کے موروث اعلی راجہ منگرپال کے نام سے ھوا۔ جس کے آباء و اجداد کا سلسلہ اجودھیا {بھارت} کے چندر بنسی خاندان کے راجہ رام چندر جی سے جا ملتا ہے۔ اِس خاندان کے راجہ ہریش چندر کے لواحقین سے ایک جنگ جو، مہم جو بہادر راجہ بیکانیر {بھارت} پہنچا اور وہاں کا حکمران بنا۔ اُس کے ورثاء پانچ پشت تک بیکانیر میں حکمران رہے۔
آخری راجہ کے دو پسران نِرمل دیو اور ھافی دیو تھے۔ نِرمل دیو تو ریاست بیکانیر سے ہی منسلک رہا لیکن اس کا حقیقی بھائی ھافی دیو بارھویں صدی عیسوی میں سیالکوت {موجودہ پاکستان} پہنچا۔ یہاں اُس کے ہاں منگرپال نامی فرزند توّلد ھوا۔ یہ راجکمار شروع ہی سے چست و ہوشیار، مضبوط قوی کا مالک اور حاضر دماغ تھا۔ عن فوانِ شباب کو پہنچتے ہی اُس نے دفاعی صلاحتوں کو اجاگر کرتے ہوئے فنِ حرب و ضرب میں مہارت حاصل کر لی۔ اور اپنے والد ھافی دیو کی وفات پر سیالکوٹ کو خیر آباد کہتے ہوئے اپنے ہمرابیوں سمیت ریاست جموں کے علاقہ راجوری میں قسمت آزمائِی کے لیے اُٹھ آیا۔ یہیں پر اُس کے ہاں واحد پسر ہندو دیو توّلد ھوا۔ راجہ منگرپال اپنی گوں نا گوں صفات شجاعت و مردانگی، معاملہ فہمی، ادراک و انتظامی صلاحیتوں کی بناء پر اپنے بیگانوں میں یکساں مقبول تھا۔ راجوری میں ہندو اور مسلمان دونوں اقوام میں منگرال راجپوتوں کی موجودگی اس امر کی غماز ہے کہ راجہ منگرپال اس حصہ ریاست میں اپنے دور میں ضرور بالضرور صاحب اقبال شخصیت تھا اور اگرچہ اس کے واحد پسر ہندو دیو ہی کی نشان دہی ھوتی ہے۔ ھو سکتا ہے اس کی اولادیں ایک سے زائد ہوں لیکن دوسروں کو غیر معروف گردانتے ہوئے ہمارے داستان گو میراثی اُن کا تذکرہ اراداتاً یا غیر ارادی طور پر چھوڑ گئے ہوں۔
بہرحال راجہ منگرپال کا پوتا راجہ سہنس پال راجوری سے تیرھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ریاست جموں کے ضلع میر پور کی تحصیل کوٹلی کے علاقہ موضع ملوٹ میں نقل مکانی کر آیا۔ وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کچھ عرصہ یہاں قیام پزیر رہا اور کچھ جمیعت اپنے ساتھ ملا لی۔ جب اُسے عوام میں ہر دلعزیزی حاصل ہو گئی تو اُس کی سیمابی اور مہم جو طبیعت نے اُسے آگے بڑھنے پر اکسایا اور بقول اقبال؛
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اُس نے موضع ملوٹ سے جانب شمال غرب پہاڑی کے دامن میں موضع چھوچھ سے ملحق موضع کوہرا کو آباد کیا اور اپنے ساتھیوں سمیت بطور قبیلہ قوم منگرال بستی بسائی۔ اِس قدیم بستی کے کھنڈرات اور آثار آج بھی زبانِ بے زبانی سے گویا ہیں کہ؛
کبھِی اِس راہ سے کوئی گیا تھا
اِس بستی اور علاقہ سے ملحق گلپور، تھروچی اور اٹکورہ کا درمیانی خطہ ہندو بھاٹ یعنی مہتروں کی عملداری تھی جو آجکل وادی سہنسہ کہلاتی ہے۔ یہ علاقہ ہندو مہتروں کو گکھڑ سرداروں کی طرف سے بعوض خدمت بطور جاگیر ملا ھوا تھا۔ جب ان ہندو مہتروں کو علم ھوا کہ ان کی جاگیر سے ملحق اعلی ہندو جاتی کا ایک راجہ اپنے ہمراہیوں کی معیت میں آباد ھوا ہے تو وہ اپنے روائتی انداز میں راجہ سہنسپال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کورنش بجا لائے۔ اِس کے ساتھ ہی ملتجی ہوئے کہ ان کی رکشا کی جائے اور ان کی موجودہ اور آئندہ تکالیف کا مداوا کر کے انہیں ترقی یافتہ عہد سے ہمکنار کیا جائے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
[۱] ۔۔۔ وادی سہنسہ تحصیل کوٹلی، مضمون از راجہ محمد یعقوب خان، ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز، میر پور در ماہانہ "نظام تعلیم" سیالکوٹ اشاعت نومبر انیس سو پچپن
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment