Hast-o-Bood Part-17

باب سوم
لفظ راجپوت کا مفہوم اور ابتدائی حالات منگرال قوم 




یہاں کی آب و ہوا اور قدرتی مناظر سے وہ اس قدر مرعوب ہوا کہ اس نے واپسی کا ارادہ ترک کرتے ہوئے یہیں اپنی حکومت قائم کرنے کی ٹھانی۔ [۱] جنانچہ اس کی وفات کے بعد اس کے واحد پسر راجہ ہندو دیو شری رائے مملکت ہوا۔ راجہ ہندو دیو ایک دھرم وید اور رعایا پرور حکمران راجکمار تھا۔ وہ ایک صاحب اقبال راجہ تھا۔ موضع کوٹلی منگرالاں بھی اس کے والدِگرامی کے نام پر آباد ہوئی تھی اور یہی ان کی حکمرانی کے دوران ان کی ریاست کا پایہِ تخت تھا۔ اس کی وفات پر اس کا ہونہار ولی عہد سہنس پال گدی کا وارث بنا۔ [۲] یہ نوجوان بھی اپنی حکمت عملی، فراخ حوصلگی اور سخاوت کی بنا پر اپنی رعایا میں خاصا مقبول تھا۔ اس نے اپنے دوران اقتدار میں موضع سہنسہ سرساوہ اپنے نام پر آباد کیا۔ اسے گیان دھان اور دھرم دیرتا اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ 

چنانچہ اس نے اس بارہ میں اپنے رجحانات کے پیش نظر تحقیق و تدقیق جاری رکھی۔ سن تیرہ سو چونسٹھ کے لگ بھگ ہندوستان دین اسلام کی ضیا پاشیوں سے منور ہو چکا تھا۔ ریاست کشمیر چونکہ ہندوستان کے شمال مغرب میں تھی اور دور افتادہ تھی اس لیے اس میں اسلام کی تعلیمات سن تیرہ سو انتالیس کے قریب پھیلنا شروع ہوئیں۔ جبکہ رینچن شاہ نے تبت سے واردِ کشمیر ہو کر بلبل شاہ کے دست پر اسلام قبول کر کے بطور صدرالدین حکمران ہو کر راجہ سہدیو کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی رعایا کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ 

سلطان سکندر شاہ معروف بہ بت شکن کے دور حکومت میں ریاست جموں کشمیر میں اشاعت اسلام کا کام پورے انہماک سے ہوا۔ اور اس طرح ریاست کے ہر حصہ میں حکمران طبقہ کی پیروی میں ان کی رعایا بھی جوق در جوق مسلمان ہوتی گئی۔ 

راجہ سہنسپال اور اس کے خاندان نے بھی دین اسلام قبول کر لیا۔ اور یوں حکمران خاندان اپنے علاقہ کوٹلی اور گردونواح میں اسلامی روایات کا امین بن گیا ۔[۳]۔۔

منگرال حکمران اس زمانہ میں بڑے صاحب اقبال تھے۔ بعد میں افغانوں کی یلغار اور ریاست پر ان کی بالادستی کی بناء پر منگرال قوم اپنی سکونتی تحصیل کوٹلی میں عام حیثیت میں آباد رہی۔ تاآنکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پنجاب پر حاکمیت قائم ہو گئی۔ ضلع گجرات پر مہاراجہ کا تسلط سن اٹھارہ سو نو میں ہوا۔ اور اس نے اپریل اٹھارہ سو گیارہ[۴] میں پہلی بار ریاست جموں کشمیر کے علاقہ بھمبھر اور راجوری پر فوج کشی کی۔ پھر سال اٹھارہ سو بارہ[۵] میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے ولی عہد کنور کھڑک سنگھ کی سرکردگی میں ایک مہم راجہ سلطان خان حکمران بھمبر اور راجوری کے خلاف روانہ کی۔ اس مہم میں سکھوں کو کامیابی ہوئی۔ لیکن سکھ فوج کی واپسی کے بعد افغان سردار نے پھر سر اٹھایا اور اپنے سابقہ علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک لشکر جرار زیر نگرانی مصردیوان چند ترتیب دیا اور تئیس جون اٹھارہ سو انیس[۶] کو علاوہ علاقہ راجوری و پونچھ سلسلہ پیر پنجال کی جملہ پہاڑیوں اور جنوبی دروں پر تصرف اور تسلط حاصل کر لیا۔ 

بعد میں پانچ جولائی اٹھارہ سو انیس [۷] کو افغان فوج کو شکست دے کر مہاراجہ کی افواج نے تمام وادی کشمیر پر قبضہ کر لیا اور خان محمد اعظم کے مقرر کردہ گورنر کشمیر جابر خان کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موتی رام پسر دیوان محکم چند کو گورنر کشمیر تعینات کیا۔ اور یوں یہ علاقہ مکمل طور پر اس کے زیر نگیں آ گیا۔

[۱] ۔۔۔ تاریخ اقوام پونچھ حصہ دوم صفحہ نمبر اکاسی،مولف محمدالدین فوق
[۲]۔۔۔  تاریخ اقوام پونچھ حصہ دوم صفحہ نمبر اکاسی،مولف محمدالدین فوق
[۳] تاریخ راجگان جموں کشمیر صفحہ نمبر تیرہ تا اٹھہتر، مصنف ٹھاکر کاہن سنگھ۔
[۴] دی پنجاب سیریز والیم ٹو، سن اٹھارہ سو چھیانوے
[۵]  اوریجن آف دی سکھ پاور ان دی پنجاب، مصنف ہنری ٹی پرینسف، صفحہ تریسٹھ، سٹھسٹھ، بہتر۔
[۶]  تاریخ اقوام کشمیر جلد سوم، صفحہ نمبر اٹھانوے، محمدالدین فوق
[۷]  دی پنجاب سیریز، والیم ٹو آف ایئر اٹھارہ سو ستانوے، اوریجن آف دی سکھ پاوران دی پنجاب، صفحہ سنانوے اور اٹھانوے، مصنف ہنری ٹی پرینسف

نوٹ:  کتاب کی مندرجات سے بلاگر کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15