Hast-o-Bood Part-21
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
بلبل شاہ نے اپنی زاہدانہ زندگی کے بقیہ سال صدرالدین کی معیت میں گزارنے اور سال سات سو ستائیس ہجری بمطابق تیرہ سو چھبیس عیسوی یعنی صرف دو سال بعد تک بقید حیات رہ کر اس دنیا سے کوچ کیا۔ اس صوفی منش مبلغ اسلام کی سعی سے ریاست کشمیر میں اسلامی مملکت کا ظہور ہوا اور صدرالدین کی حکومت کے بعد اٹھارہ سو انیس عیسوی تک کل چار سو چرانوے سال مسلمان حکمران ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ان سب نے رعایا سے پورے اخلاص و رواداری سے بلالحاظ ملک و ملت ترجیحی سلوک کیا۔ ان کے ہر دکھ درد میں شریک رہنے کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں حکومت کی اور اُس وقت تک اس سلطنت کو زوال سے دو چار نہ ہونا پڑا جب تک اس کے کرتا دھرتا عیش و عشرت، بے راہ روی، ظلم و تشدد، اور تعصب کا شکار نہ ہوئے۔
ریچن شاہ کے ساتھ ساتھ جو دوسرا شخص ریاستِ کشمیر میں داخل ہوا وہ علاقہ سواد کنیر کا ایک سیاح [۱] شاہ میر نامی تھا۔ وہ گو جملہ علوم سے واقف تھا اور علم و فضل کے لحاظ سے یکتائے روزگار تھا لیکن غریب الوطنی[پردیس] اور ناواقفیت کی بنا پرچندے سرگرداں پھرا۔ آخر اس کے بخت نے یاوری کی اور صدرالدین شاہ کی مردم شناس طبیعت نے اس جوہر قابل کی عزت افزائی کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ ملا لیا اور حکومت ملنے پر اپنے نابالغ بچوں کا اتالیق مقررکردیا۔ جو نہ صرف بادشاہ کے شہزادوں کی تربیت کرنے لگا بلکہ بادشاہ کو بھی امور سلطنت میں صائب رائے دیتے دیتے اُس کا عاہت درجہ معتمد بن گیا۔ صدرالدین شاہ سال سات سو سنتالیس ہجری بمطابق تیرہ سو چھیالیس میں وفات پا گیا۔ اس کے ورثاء میں سے کوئی بھی اس قابل نہ تھا جو سلطنت کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتا۔ چنانچہ اپنی شہرت، تدبر اور حکمت عملی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ میر نے تاج و تخت پر قبضہ کر لیا اور شہمیری خاندان کی حکومت کی بنا ڈآلی۔ اس خاندان نے کشمیر پر نو سو اٹھاسٹھ ہجری بمطابق پندرہ سو پینسٹھ عیسوی تک حکومت کی اور بہت ہی زیرک، مہم جو، صاحب فہم و فراست، روادار اور بہادر بادشاہ پیدا کیے۔ شہمیری حکمرانوں میں سب سے نامور سلطان شہاب الدین گزرا ہے جس کے دور حکومت کو کشمیر کا زریں زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ اُس کے عہد میں شیر اور بکری ایک ساتھ اور ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ رعایا خوشحال تھی، اشیاء خوردنی اور صرفِ بہتات سے اور وافر مقدار میں موجود تھیں۔ تمام ریاست میں امن و امان تھا۔ ریاست کی انتظامیہ مستحکم تھی۔ ملک کی خوشحالی کا دُور دُور چرچا تھا۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رح نے اس سلطان کے بارہ میں کش قدر واضع خراج تحسین یوں ادا کیا ہے کہ:
خاک ما دیگر، شہاب الدین نژاد
خاندان شہمیر کا دوسرا قابل ذکر اور مشہور سلطان سکندر خان المعروف بت شکن گزرا ہے۔ جس کا دور حکومت سال سات سو چھیانوے ہجری بمطابق تیرہ سو تریانوے عیسوی لغایت آٹھ سو انیس ہجری بمطابق چودہ سو سولہ عیسوی تھا۔ وہ ایک راسخ العقیدہ، انصاف پرور، صلح جو اور فراخ حوصلہ حکمران تھا۔ اُس کا عہد بھی کشمیر میں فتوحات اور خوشحالی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ راعی اور رعایا ہر دو انتہائِی مسرت اور شادمانی سے گزر بسر کرتے تھے اور بے چینی نام کی کوئِی شے اس خطہ کے باسیوں کے پاس نہ بھٹکنے پاتی تھی۔
اِسی خاندان کا آخری بطل جلیل اور نامور بادشاہ جو عرف عام میں [۲] بُڈشاہ [بڑا شاہ] یا بھٹ شاہ [ہندوئوں کا راجہ] پکارا جاتا تھا۔ اس کا اصل نام سلطان زین العابدین تھا جو سکندر شاہ بت شکن کا لڑکا تھا۔ وہ اپنے حسن کردار، نیک سیرت، تعمیراتی ذوق، انتظام مملکت، رفاع عامہ کے امور، فنون لطیفہ کی ترویج اور متعدد خوبیوں کی بناء پر عوام و خواص میں غایت درجہ مقبول تھا۔ اس کے دور میں انصاف کا دور دورہ تھا۔ اس کا قابل ذکر کارنامہ زینہ لنک [۳] نامی جزیرہ کا وُلر جھیل میں بنوایا جانا تھا۔ جس کی تعمیر کے لیے اس نے ضلع گجرات [پنجاب] سے معمار اور کاریگر منگوائے اور انہیں سرکاری ملازم رکھ کر کشمیری عوام کو اُن سے تربیت دلوائی۔ اس سلطان کا زریں زمانہ سال آٹھ سو تینتیس ہجری نمطابق چودہ سو تیس عیسوی تا آٹھ سو اٹھتر ہجری بمطابق چودہ سو ستائیس عیسوی تھا۔ اُس کی وفات پر شہمیری خاندان زوال پزیر ہو گیا۔ ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہو گیا۔ مملکت کا شیرازہ بگھڑتے دیکھ کر شہنشاہ ہندوستان محمد ظہیر الدین بابر کے خالہ زاد بھائی مرزا حیدر ذوغلاف نے کشمیر پر ہلہ بول دیا اور ریاست پر متصرف ہو گیا۔ چند سال وہ اِس خطہ جنت نظیر پر حکمران رہا لیکن اپنوں کی ریشہ دانیوں اور سازشوں کا شکار ہو کر انتہائِی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اور ایک دفعہ پھر ریاست میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئِی۔ اس دفع ایک طالع آزما، جنگجو سردار غازی چِک کی قسمت نے یاوری کی اور اس نے اپنے ہمراہیوں کی مدد سے بزور شمشیر اس خطہ عرضِی پر چِک خاندان کی حکمرانی قائم کر دی۔ چِک حکمران متعصب شیعہ عقیدہ کے حامل تھے۔ وہ جبر و تشدد سے لوگوں کو اپنے ہم مشرب بناتے اور دوسرے فرقوں سے انتہائی سفاکانہ سلوک رواہ رکھتے۔ اُن کے دور حکومت میں کسی غیر شیعہ کی عزت و ناموس محفوظ نہ تھی۔ وہ ملکی معاملات میں بھِی انتہائی سخت گیر تھے۔ ان کی جابرانہ اور ظالمانہ طرز حکومت سے تنگ آ کر رعایا کی اکثریت جو سنی العقیدہ تھِی ریاست سے ہجرت پر مجبور ہو گئی اور اس خاندان کا انتہائی منہہ زور، بدکردار اور ظالم حکمران یعقوب چک [۴] تھا جس نے اپنی حکومت کے دوران قاضی موسی نامی سنی بزرگ کو شیعہ عقائد قبول کرنے اور اپنے مفید مطلب فتوی دینے پر مجبور کیا لیکن یہ صوفی منش انسان حکومت نے ناجائز دبائو میں نہ آیا۔
جاری ہے ۔۔۔
[۱] ۔۔۔ تاریخ کشمیر جلد اول، طبقہ دوئم مولفہ محمدالدین فوق صفحنہ چار سو چوہتر
[۲] ۔۔۔ حکایات کشمیر، مولفہ محمد الدین فوق، صفحہ نمبر انانوے
[۳] ۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر حصہ دوئم، مرتّبہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر اکتالیس
[۴] ۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر، جلد دوئم، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ ایک سو ستاون
[۲] ۔۔۔ حکایات کشمیر، مولفہ محمد الدین فوق، صفحہ نمبر انانوے
[۳] ۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر حصہ دوئم، مرتّبہ محمدالدین فوق، صفحہ نمبر اکتالیس
[۴] ۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر، جلد دوئم، مولفہ محمدالدین فوق، صفحہ ایک سو ستاون
بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment