Hast-o-Bood Part-19
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
Holar Dam Side Kotali
کشمیر کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار ایک سو سال سے زائد سالوں پر محیط ہے۔ قدیم کتابوں [۱] نیلہ مت، مصنفہ پنڈت نیل ناگ، راج ترگنی، مصنفہ کلہن پنڈت وزیر و مشیر خاص راجہ جے سنگھ والیے ریاست جموں کشمیر، پوران، رامائن، مہابھارت، برتھ کتھا، بھگوت گیتا، شاد کا مہاتم، وید شاستر اور دیگر کتب جو برصغیر پاک و ہند میں تصنیف و تالیف ہوئیں سے کشمیر کی ہیئت، محل وقوع اور زندگی کے ارتقاء کے بارہ میں مستند حالات کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔
کیونکہ ریاست کی تقدیر غیر منقسم ہندوستان سے اوائل سے ہی وابستہ تھی اس لیے نا صرف شمالی ہند سے بلکہ ہندوستان کے متعدد علاقوں سے زمانہِ قدیم کے طالب علم حقیقت رشی مُنی، قدرتی مناظر، پہاڑوں، غاروں اور جنگلوں میں یکسوئی اور گیان دھان کی منزلوں کو دنیاوی شور اور شر سے دور طے کرنے کے لیے گوشہ ہائے عافیت کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ہندوستان میں مہذب انسانی زندگی کا ارتقاء منو جی کے دھرم شاشتر کے مطابق برہما سے ہوا۔ اس کے دو پسر وچھ یعنی سورج اور اترا یعنی سُوم یا چندرما کے جنم سے سورج بنسی اور چندر بنسی یا چاند بنسی اقوام کی ابتداء ہوئی اور یوں ابتدائِی طور پر ایک دوسرے کی پہچان کے احساس نے اس خطہ کے انسانوں کو دنیا داری اور حکمرانی کے مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا۔
برہما [۱] کے ہاں اور بھی اولادیں تھیں۔ اس کے پسر مریچھ کے لڑکے کیشپ کی تیرہ رانیاں تھیں۔ ان میں سے پہلی اور سب سے بڑی رانی اوِّتی کے ہاں بارہ فرزند توّلد ہوئے۔ جن میں سب سے بڑے بیٹے کا نام بسواں تھا۔ جو سورج کے نام سے مشہور تھا۔ ایک روایت کے مطابق سورج بنسی راجپوت قوم کا آغاز اس کے ہی نام سے ہوا۔ کیشپ گیان دھان کا رسیا تھا اور تپسیا ہی میں لگا رہتا تھا۔ ریاست کشمیر میں آبادی کا آغاز اس کی کوشش اور روحانیت کی صفات کی وجہ سے ہوا۔
برہما [۱] کے ہاں اور بھی اولادیں تھیں۔ اس کے پسر مریچھ کے لڑکے کیشپ کی تیرہ رانیاں تھیں۔ ان میں سے پہلی اور سب سے بڑی رانی اوِّتی کے ہاں بارہ فرزند توّلد ہوئے۔ جن میں سب سے بڑے بیٹے کا نام بسواں تھا۔ جو سورج کے نام سے مشہور تھا۔ ایک روایت کے مطابق سورج بنسی راجپوت قوم کا آغاز اس کے ہی نام سے ہوا۔ کیشپ گیان دھان کا رسیا تھا اور تپسیا ہی میں لگا رہتا تھا۔ ریاست کشمیر میں آبادی کا آغاز اس کی کوشش اور روحانیت کی صفات کی وجہ سے ہوا۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ آغاز میں کشمیر کا خطہ [۲] ستی سرنامی جھیل کی صورت میں پہاڑوں سے گھِرا ہوا تھا۔ یہاں پانی اور برف کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیشپ [۳] رشی عبادت اور یکسوئی کے لیے کوثر ناگ پہاڑ کی چوٹی پر برجمان ہوا اور یہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ حتی کے اردگرد سے کچھ لوگ اس کا شہرہ سن کر اس کی خدمت میں آنا شروع ہو گئے۔ اور اپنے تکلیفات کے مداوا کے لیے اس کے اعانت کی استدعا کرنے لگے۔ اُن کی سب سے بڑی مصیبت ستی سر کے برفیلے تالاب میں جلدبھو نامی آدم آزاد دیو کی موجودگی تھی جس کو برہما کی دعا تھی کہ جب تک وہ اس تالاب کے اندر پانی کے کے اندر رہے گا اس کو کوئِی گزند نہیں پہنچے گا۔ اور نہ ہی وہ ہلاکت سے دوچار ہو گا۔ لوگوں کی آہ و زاری، نالہ و شیون سے متاثر ہو کر رِشی کیشپ نے ان کو تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ اس دیو کا ناش کر کے ان کو اس کے پنجہ استبداد سے نجات دلائے گا۔ چنانچہ رِشی کیشپ نے بمقام بتیرہ پور قیام فرمایا اور کئی برس ریاضت اور دعا میں گزاری۔ باالآخر مہادیو کو اس پر رحم آ گیا اور اس نے برہما اور بشن دیو کو اس دیو کو ختم کرنے پر مومور کیا۔ چونکہ برہما ہی کی دعا سے اسے جھیل کے اندر اور پانی کی موجودگی میں کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا تھا اس لیے بہما کی آگیا سے بشن دیو نے بارہ مولا کے قریب سے پہاڑ کاٹ کر جھیل ستی سر کا کا پانی ندی نالوں کی صورت میں بہا دیا اور رفتہ رفتہ نیچے سے زمین نکل آئی۔ لیکن اب بھِی جھیل کے ایک طرف زمین کی گہرائی کی وجہ سے بانی بدستور کھڑا رہا۔ جس میں اس عفریت نے پناہ لے لی۔ اس پر بشن دیو نے کوہ شمیر سے ایک بڑی مٹی کا تودہ اٹھا کر اس گہری جگہ کو بند کر دیا جس سے جلدبھو دیو دب کر ختم ہو گیا۔ یوں یہ جھیل خشک خطہ ارضی میں تبدیل ہو گئِی۔ کیشپ رشی نے اس جگہ اردگرد کے علاقوں میں برہمنوں اور اپنے ہم خیال لوگوں کو لا بسایا اور اس کے ہی نام پر آبادی کا نام کیشپ میر یا کشمیر پڑ گیا۔
[۱] ۔۔۔۔ تاریخ راجگان جموں کشمیر مولفہ ٹھاکر کاہن سنگھ صفحہ نمبر بیالیس
[۲]۔۔۔۔۔ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مولفہ پنڈت سالکرام کول صفحہ نمبر انتالیس
[۳]۔۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر مولفہ محمدالدین فوق جلد اول صفحہ نمبر تیرہ
[۲]۔۔۔۔۔ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مولفہ پنڈت سالکرام کول صفحہ نمبر انتالیس
[۳]۔۔۔۔ مکمل تاریخ کشمیر مولفہ محمدالدین فوق جلد اول صفحہ نمبر تیرہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Very Interesting. Indian history is full of enchanted stories.
ReplyDelete