Hast-o-Bood Part-27

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ

مہاراجہ ہری سِنگھ


برصغیر کی تاریخ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو اور قائداعظم محمد علی جناح رح کی ولولہ انگیز قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ نے ریاستی مسلمانوں میں بھی جوش اور اشتیاقِ آزادی پیدا کیا۔ اب وقت کی ضرورت کے تحت مسلم کانفرنس کی بناء ڈالی گئی اور یوں کشمیری اپنے محبوب قائدین سردار عبدالقیوم، سردار محمد ابراہیم، چوھدری غلام عباس، مسٹر کے ایچ خورشید، میر واعظ محمد یوسف، میر واعظ محمد فاروق وغیرہم کی قیادت میں کفن بردوش میدانِ عمل میں کود پڑے۔ مہاراجہ ہری سِنگھ نے اپنی خاندانی نسحہِ تشدد کو آزمایہ۔ حریت پسندوں پر گولیوں کی بوچھاڑ، متعدد بار اور مختلف مواقع پر کروائی لیکن اِس سیلاب کے آگے ریت کا بند باندھنا نا ممکن ھو گیا۔ پاکستان بننے کے اعلان کے ساتھ ہی، بھمبر، پونچھ، کوٹلی، گلپور، تھروچی اور ریاست کے غربی علاقوں کے فوجی تربیت یافتہ پنشن خواران سرکارِ انگریزی افراد نے بزور شمشیر ریاستی بزدل ڈوگرہ افواج سے موجودہ آزادکشمیر کا علاقہ چھین لیا۔ جب مہاراجہ ہری سِنگھ کو بزور شمشیر اپنی کامیابی ناممکن دکھائی دی تو وہ سری نگر سے فرار ھو کر جموں چلا گیا اور باوجود پاکستان سےمعائدہ قائمہ کرلینے کے اپنے بھارتی غمگساروں سے ساز باز کرتا رہا۔ باآخر رعایا کی غالب اکثریت کی خواہشات کے برخلاف اُس نے ستائیس اکتوبر سن انیس سو سینتالیس عیسوی کو بھارت سے غیر فطری الحاق کی دستاویزپر دستخط کر کے فوجی امداد حاصل کی اور سنگینوں کے سائے میں اپنی عملداری سے راہ فرار اختیار کر کے دھلی چلا گیا۔ یوں کشمیری مسلمانوں کےلیے ایک دائمی کربناک کیفیت کا اعادہ کر گیا۔

غیر سے رسمِ وفا خوب نبھائی اُس نے
نہ سہی ہم سے مگر اُس میں وفا ہے تو سہی

ریاست جموں کشمیر کی سال انیس سو اکتالیس عیسوی مردم شماری کے مطابق ہر دو صوبہ جموں و کشمیر کی مجموعی آبادی چالیس لاکھ اکیس ہزار چھ سو سولہ نفوس تھی۔ جس میں صوبہ کشمیر کی آبادی بیس لاکھ چالیس ہزار ایک سو تراسی نفوس پر مشتمل تھی۔ جبکہ صوبہ جموں میں کل انیس لاکھ اکیاسی ہزار چار سو تینتیس نفوس آباد تھے۔ صوبہ کشمیر کا رقبہ تریسٹھ ہزار پانچ سو چون مربع میل اور صوبہ جموں کا رقبہ بارہ ہزار تین سو اٹھہتر مربع میل ہے۔

ریاست کشمیر کے روابط اقتصادی، معاشرتی، مذہبی، تجارتی، تمدنی اور قدرتی آبی گزرگاھوں کی بنا پر اور پاکستان کے عین شمال میں ھونے کی بناء پر اظہر من الشمس ہیں۔ اِس کے دریائوں کی گزرگاہیں پنجاب کی سرزمیں سے ہو کر بھارت کی طرف مڑتی ہیں۔ دریائے سندھ تو قطعی پاکستان سے متعلق ہے۔ جبکہ دریائے جہلم، چناب، راوی اور بیاس کا بھِی پاکستانی علاقہ میں ہی بہائو ہے۔ تقسیمِ ملک سے پہلے کشمیر کی تمام تر عمارتی لکڑی جہلم اور چناب کے ذریعہ دریائی سفر طے کر کے ہندوستان بھجوائے جانے کے لیے پنجاب میں لائی جایا کرتی تھِی۔ ریاست کا ریل کا واحد رابطہ ریاست جموں کے ساتھ بھِی سیالکوٹ [پنجاب] پاکستان ہی کی طرف سے تھا۔ بری راستے بھی تمام تر صوبہ پنجاب سے ہی کشمیر کو باقی دنیا سے ملاتے تھے جن سے کشمیر کے بیرونی دنیا سے جملہ تجارت کا راستہ سارا سال کھلا رہتا تھا۔ اۃن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ [۱] ۔ راولپنڈی سے کوہ مری، یہاں سے کوھالہ، وہاں سے بارہ مولہ، پھر سری نگر۔ کل مسافت ایک سو بتیس میل۔ اِس کو بادشاہی راستہ یا پیر پنجال کا راستہ بھی کہتے ہیں۔ اب کیونکہ ریاست دو ممالک میں عارضی انتظام کے تحت بطور آزاد کشمیر بٹ چکی ہے اور ابھی اس متنازع مسئلہ کا فیصلہ باقی ہے اس لیے اس شاہراہ سے استفادہ ممکن نہیں رہا۔ اِس راستہ میں قدرتی مناظر، درائوں اور آبشاروں کے زمزمے اور چشموں کے شفاف پانی کے نظاروں سے پاکستانی سیاح محظوظ ھونے سے قاصر ہیں۔ اِس طویل پہاڑی سفر میں علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے پُلوں کے دو ہزار سے زائد بڑے پُل ندی نالوں پر بنے ھوئے ہیں۔
 
ریاست کشمیر میں گجرات [پنجاب] کی طرف سے جانے کا راستہ گجرات سے بھمبر، ساڑھے اٹھائیس میل، بھمبر سے سید آباد چودہ میل، سید آباد سے نوشہرہ بارہ میل، نوشہرہ سے چنگس چودہ میل، چنگس سے رام پور روجوری چودہ میل، راجوری سے تھنہ منڈی چودہ میل، وہاں سے بہران گلہ دس میل، بہرام گلہ سے بوشیانہ دس میل، بوشیانہ سے علی آباد سرائے گیارہ میل، علی آباد سرائے سے ہیرا پور تیرہ میل، ہیرا پور سے شوپیاں آٹھ میل، شوپیاں سے رامو بارہ میل، اور رامو سے سری نگر اٹھارہ میل۔

ایک اور راستہ راولپنڈی سہالہ سے کہوٹہ، کہوٹہ سے لچھمن پتن تیس میل، لچھمن پتن سے پلندری پندرہ میل، پلندری سے ہیلاں پندرہ میل، ہیلان سے ہجیرہ بارہ میل، ہجیرہ سے پونچھ دس میل، پونچھ سے علی آباد سولہ میل، علی آباد سے اوڑی سترہ میل، اوڑی سے رام پور چودہ میل، رام پور سے بارہ مولا چودہ میل، اور بارہ مولا سے پٹن سترہ میل، پٹن سے سری نگر سترہ میل۔

اِس کے علاوہ ایک راستہ سیالکوٹ سے بھِی ریاست کو جاتا ہے۔ سیالکوٹ سے پہلے بذریعہ ریل جموں جایا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی علاقہ چک امرو [تحصیل شکر گڑھ، ضلع سیالکوٹ] تک اب بھی ریل جاتی ہے۔ سیالکوٹ سے چک امرو تک ایک سو پندرہ میل، چک امرو سے جموں، اور پھر جموں سے اودھم پور چالیس میل، اودھم پور سے بٹوٹ پینتیس میل، بٹوٹ سے رام سوہ تینتیس میل، رام سوہ سے ویری ناگ تئیس میل،ویری ناگ سے اسلام آباد سترہ میل اور اسلام آباد سے سری نگر چونتیس میل، ضلع جہلم سے براستہ میر پور بیس میل، میر پور سے کوٹلی منگرالاں چونتیس میل، اور کوٹلی سے پونچھ ستائیس میل، اور پونچھ سے سہالہ ضلع راولپنڈی والے راستہ سے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے سرینگر پہنچ جایا کرتے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔۔

[۱]  رہنمائے کشمیر، مصنفہ محمدالدین فوق
[۲]  رہنمائے کشمیر، مصنفہ محمدالدین فوق

نوٹ: بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں