Hast-o-Bood Part-20
باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ
ایک دوسری روایت [۱]کے مطابق کیشپ نامی ایک دیو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سیر و تفریح کے لیے جب ادھر آ نکلے تو انہیں ستی سر جھیل اور اس کے اردگرد برف پوش پہاڑ بہت بھلے لگے۔ چنانچہ انہوں نے اس جگہ لوگوں کو آباد کرنے کی ٹھانی۔ اپنے منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کیشپ دیو کو جھیل ستی سر کا پانی خشک کرنے کا حکم دیا۔ جس نے بارا مولا کے مقام سے پہاڑ کو کاٹ کر متعدد جگہوں سے جھیل کا پانی مختلف ندی نالوں میں بہا دیا اور اس طرح ان لوگوں کو اس خشک خطہ اراضی پر آباد کیا گیا۔
اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں ایک دیو کشف نامی میر نامی پری پر فریفتہ تھا۔ جو اس کو خاطر میں لاتی تھی۔ اُس نے اس بارہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں استدعا کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو دوران سیاحت اس دلفریب خطہ کو دیکھ چکے تھے اس دیو سے فرمایا کہ اگر تم جھیل ستی سر کے پانی کو ختم کر دو تو تمہیں گُوہر مقصود مل جائے گا۔ چنانچہ کشف دیو نے پہاڑ کاٹ کر جھیل کا تمام پانی بہا دیا اور اس سر زمین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے انسانی آبادی معرض وجود میں آ گئی۔ یوں کشف دیو کو میر پری کا وصال حاصل ہو گیا۔ جن کے ناموں کے ارتباط سے اس جگہ کا نام کشف میر یا کشمیر پڑ گیا۔ مملکت کشمیر کا دارالخلافہ سری نگر بعد ایک سے تین عیسوی کے لگ بھگ راجہ پروسین نے آباد کیا تھا۔
واقعہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اس حقیقت پر سبھی کو اتفاق ہے کہ کشمیر آغاز میں ایک وسیع و عریض جھیل ستی سر کے نیچے تھا جس کے خشک ہونے کے بعد کیشپ رشی نے برہمنوں اور یاکش قوم کو ملحقہ علاقوں سے لا کر یہاں آباد کیا۔ برہمن لوگ دھرم اور گیان کے کاموں میں لگے رہتے تھے جبکہ یاکش پستہ قد کے تنومند، جنگجو، عالی ہمت اور طاقت ور لوگ تھے اور اپنی عسکری قوت کے مظاہرے میں منہک رہتے تھے۔ برہمن ان سے ہمیشہ خم کھاتے اور انہیں نذرانے اور تحائف پیش کیا کرتے تاکہ ان کی حفاظت کرتے رہیں۔ چنانچہ ہزاروں سال گزرنے [۲] کے باوجود اب بھی کشمیری پنڈت گھرانوں میں وہی کردار بطور رسم قدیم یوں زندہ رکھا جاتا ہے کہ پندردین ماہ پوہ کو کھچڑی پکا کر ایک کوری ہنڈیا میں ڈال کر سر شام گھر سے باہر کہیں رکھوا دی جاتی ہے تاکہ ان کی یہ بھینٹ یاکش قوم قبول کر لے اور دنیاوی آفتوں اور بلائوں سے برہمن اور ان کے گھرانے محفوظ و مامون رہیں۔
یوں اس خطہ میں انسانی آبادی کی ابتداء ہوئی۔ ریاست میں آغآز انسانیت سے سن تیرہ سو بائیس تک ہندومت کے پیروکار کم و بیش اکیس خاندانوں کے پانچ سو سینتیس بادشاہ حکمران رہے۔ سال تیرہ سو تئیس میں پہلے بار ذوالقدر تاتاری[۳] نے ستر ہزار فوج جرار کے ساتھ اس علاقہ کی طرف پیش قدمی کر کے اسے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی اماج گاہ بنا دیا اور ہنگامہ آرائی کے بعد یہاں سے چلتا بنا۔ بعد سال تیرہ سو چوبیس [۴] میں یہاں کے شکست خوردہ راجہ سہ دیو نے تاتاریوں کے مبینہ دوبارہ حملہ کے خوف سے اپنے معتمد وزیر رام چند کی معیت میں اپنے دیگر بہی خواہوں کے ہمراہ دارالسلطنت چھوڑ کر پہلے پہاڑوں میں روپوشی اختیار کر لی اور پھر کشٹواڑ چلا گیا۔ اسی زمانہ میں ملحقہ ریاست تبت سے دو افراد کسمپرسی کی حالت میں سرزمین کشمیر میں وارد ہو چکے تھے۔ ان میں ایک ریچن شاہ تھے جو اپنے مختصر سے ہمراہیوں کے ساتھ آئے تھے۔ جب انہوں نے شہ دیو اور اُس کے معتبرین کو غائب پایا تو پہلے دارالخلافہ پر متصرف ہوئے اور بعد زمانہ حکومت سنبھال کر پورے ملک پر حکمرانی کرنے لگے۔ اس طرح ریاست پہلی بار ملک سے باہر آنے والا ایک غیر ملکی ایک بدھ حکمران بنا۔ [۵] ۔ ریچن شاہ مذہب کے معاملہ میں متجسس رہا کرتا تھا۔ شجائی کی جستجو نے ایک دن اس کو ایک نیا عزم دیا۔ اس نے اپنے دل سے یہ عہد کیا کہ اگلی صبح جو کوئِی بھی سب سے پہلے اسے نظر آیا وہ اسی کا مذہب اختیار کر لے گا۔ اللہ کی قدرت کہ صبح دم اس کی نظر اپنے محل کے جھرونکے سے دریا کی جانب پڑی جہاں کنارہ دریا پر اس نے ایک آدمی کو عجیب طریقہ سے عبادت کرتے ہوئے پایا۔ اپنے چوبدار کو بھیج کر ریچن شاہ نے اس آدمی کو بلایا اور اس سے اس کے عقیدہ اور مذہب کے بارہ میں متعدد سوالات کیے۔ یہ آدمی ایک کریم النفس بزرگ صاحب طریقت، زاہد اور متقی شرف الدین عرف بلبل شاہ تھے۔ جنہوں نے بادشاہ کو اسلام کے زریں اصولوں کی تبلیغ کی اور اس کے دست حق پرست پر ریچن شاہ مشرف با اسلام ہو گئے۔ بادشاہ کا اسلامی نام صدرالدین بادشاہ رکھا گیا۔ بادشاہ کے قبول اسلام کے بعد اس کے امراء و وزراء نے بھی اس سعادتِ دارین سے اپنے قبول منور کیے۔ اور رعایا کے ایک بڑی تعداد حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ اس طرح ریاست کشمیر میں سال تیرہ سو چوبیس میں اسلام شاہی مذہب کے طور پر ابھرا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
[۱] ۔۔۔۔۔ حکایات کشمیر مرتبہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر بیالیس
[۲] ۔۔۔۔ تاریخ اقوام کشمیر جلد سوئم، مولفہ محمدالدین فوق اور کشمیری ذاتوں کے عجائب از محمد عبداللہ قریشی صفحہ نمبر تین سو سات۔
[۳] ۔۔۔۔ تاریخ کشمیر جلد اول حالات راجگان ہنود مولفہ محمد الدین فوق، صفحہ دو سو ستتر
[۴] ۔۔۔۔۔ تاریخ کشمیر جلد اول، مولفہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر دو سو چوہتر
[۵] ۔۔۔۔ ایرانِ کبیر و ایرانِ صغیر، مرتبّہ محمد عبداللہ قریشی صفحہ نمبر انیس
[۲] ۔۔۔۔ تاریخ اقوام کشمیر جلد سوئم، مولفہ محمدالدین فوق اور کشمیری ذاتوں کے عجائب از محمد عبداللہ قریشی صفحہ نمبر تین سو سات۔
[۳] ۔۔۔۔ تاریخ کشمیر جلد اول حالات راجگان ہنود مولفہ محمد الدین فوق، صفحہ دو سو ستتر
[۴] ۔۔۔۔۔ تاریخ کشمیر جلد اول، مولفہ محمدالدین فوق صفحہ نمبر دو سو چوہتر
[۵] ۔۔۔۔ ایرانِ کبیر و ایرانِ صغیر، مرتبّہ محمد عبداللہ قریشی صفحہ نمبر انیس
بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment