Hast-o-Bood Part-14
باب دوم
وطنیت اور قومیت کا تصور
وطنیت اور قومیت کا تصور
لشکر اسلام کا قومیت وار ترتیب دیا جانا بھی اہل اسلام کو اس بات کی تعلیم دینا مقصود تھا کہ جس طرح مختلف ندی نالے اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے کسی دریا میں خود کو ضم کرکے اپنے لیے نیا نام اختیار کر جاتے ہیں۔ اور مختلف دریا باہم دگر مل کر یا علیحدہ علیحدہ سمندر میں جا گرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف قومیت، رنگ و نسل کے افراد اپنی اپنی حیثیت تعارف کی حد تک برقرار رکھتے ہوئے سوادِاعظم کے جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ملت واحدہ میں ضم ہو کر ملت اسلامیہ کہلائیں گے۔
یہی مقصود ملت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
آخر میں ایک اور مثال بیان کر کے اس مضمون کو ختم کیا جاتا ہے۔ مکہ فتح ہو چکا ہے، مشرکین مکہ جن میں اکثریت قریش اور خانوادہ بنو ہاشم کی بھی ہے۔ بطور مفتوحین خمیدہ سر موجود ہیں۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر ہجرت سے پہلے اور بعد میں لاکھوں ستم ڈھائے تھے اور وہ بھی ہیں جنہوں نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خانوادہ کو مشقِ ستم بنایا تھا۔ حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اقدس پر گندگی رکھنے اور رکھوانے والے۔ جنگ احد میں دندان مبارک شہید کرنے والے۔ آپ کی دختر نیک اختر بی بی زینب رض کو نیزہ مار کر زخمی حالت میں اونٹ پر سے گرانے والے۔ آپ کے عزیز ترین شجاع چچا سیدنا حمزہ رض کو دھوکے سے وحشی کے ذریعہ احد میں شہید کرنے والے اور کرانے والے۔ ان کی لاش کا مثلہ کرنے والے اور ان کا کلیجہ دانتوں میں چبانے والی ہندہ۔ غرض کس کس کا ذکر کیا جائے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے تو ایک عظیم فاتح کی حیثیت میں بھی آپ نے صرف اس قدر ہی جامع الفاظ ارشاد فرمائے۔ "جائو آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے تم سب آزاد ہو۔"
سرورکونین کی پاک تعلیمات عالم اسلام کے لیے رہتی دنیا تاک روشنی کا مینار ہیں۔ ان کی روشنی میں باہمی یگانگت، بھائی چارہ، اخوت اور قومی یک جہتی کو فروغ دینا ہی حاضل زندگی ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
قدیم ساکنان کشمیر میں تحفظ ریکارڈ اور انفرادیت کی نمو بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضعف قوت اور سابقہ اقدار سے لاپرواہی نے انہی اسلاف کی یاد سے بھی یکسر محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے عظیم کارناموں سے قطع نظر ان کے نام تک بھی بھول گئے۔ اس کا منطقی نتیجہ اس صورت میں یہی نکلا کہ کشمیری مسلمانوں کی قدیم ذاتوں اور گوتوں کو یوں فراموش کر دیا گیا کہ جیسے ان کا وجود تک نہ تھا اور خطابی، القابی، اعزازی، صفاتی، نسبی، کاروباری، پیشہ ورانہ، عرفی اور تخلصی نام نئی ذاتوں اور گوتوں کے مبدا و محرک ٹھہرے۔ چنانچہ منگرال قوم بھی راجہ مہنگرپال کی نسبی رعایت کی مرہون معلوم ہوتی ہے۔
ملت اسلامیہ کی اجتماعی یک جہتی ہی ہر ایک سچے مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہئے اور راقم بھی اسی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن مجھ جیسے ہیچمدان اور بے سروسامان انسان کے لیے اکیلے اس عظیم قومی فریضہ سے عہدہ برا ہونا ممکنات میں سے نہ تھا۔ چنانچہ اپنی اس حقیر پیشکش سے اس سلسلہ میں صرف ابتدا کرنا مقصود تھی کہ یوں اگر اپنے مختصر گروہ میں یک جہتی نام کی چیز پیدا کر سکا تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ ہو سکتا ہے کہ میری اس پر خلوص کوشش سے قوم [قبیلہ] منگرال کے باہمی روابط استوار ہو کر سوادِ اعظم جا جزو بن جائیں اور یہی حقیر سعی مشکور ہو کر میری نجات کا باعث ہو جائے کیونکہ : رحمت حق بہانہ می جوید
جاری ہے ۔۔۔
ماشاءالله
ReplyDeleteبہترین دعوت فکرہے
گوگل سے سائن ان ھو کر کمنٹس کیا کریں تاکہ آپ کا نام بھی طاہر ھو
ReplyDeleteفتح مکہ کے بعد معاف فرمانے کی اعلیٰ ترین مثال
ReplyDeleteبہت خوب فرمایا بے شک باہمی یگانگت اور
ReplyDeleteبھائی چارہ سب سے پہلے قبیلہ اور ذات سے ہی شروع کر قومی اتحاد تک پہنچتا ہے۔