Hast-o-Bood Part-15

باب سوم
لفظ راجپوت کا مفہوم اور ابتدائی حالات منگرال قوم 



قدیم ہند کے مختلف صوبہ جات اور ریاستوں کے چھوٹے چھوٹے سردار اور حکمران اپنے اپنے حلقہ اقتدار میں راجہ کہلائے اور ان پر اقتدار اعلی کے حامل نے خود کو مہاراجہ کے لقب سے ملقب کیا۔ چونکہ یہ راجے خود کو اپنے پیش رو راجہ کا پوت کہلاتے تھے اس لیے یوں لفظ راج پوت [یعنی راجہ کا پوت یا لڑکا] کی تشکیل ہوئی۔ ویسے لفظ راجپوت کا لغوی معنوی سرچشمہ منو جی کا فکری مجوزہ لفظ "کشتری" ہے جو قدیم بھارت میں بہادر اور جنگجو فرقہ کے لیے مستعمل تھا۔ اور جو روزایام سے بگڑ کر "کھتری" ہو گیا۔ دراصل یہ کھتری قوم "راجپوت قوم" ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ 

اس حقیقت کی تصدیق جناب ایچ اے روز صاحب نے اپنی کتاب گلاسری آف ٹرائبز پنجاب و سرحد کی جلد سوم صفحہ نمبر [دوسو بہتر] تحتی ضمن قوم راجپوت میں یوں یہ صراحت کی ہے کہ راجپوت اور کھتری ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ہندو محققین کے مطابق سری رام چندر جین بنسی شاخ سے تھے جبکہ کورو اور پانڈو چندر بنسی شاخ سے ہیں۔ ہر دو شاخیں برہما جی کے ایک پوتے "بیس واں" جس کا نام سورج بھی تھا اور دوسرے پوتے چندرمان جس کو سوم بھی کہتے ہیں سے معرض وجود میں آئی۔ [مندرجات تاریخ اقوام پونچھ حصہ اول از محمدالدین فوق صفحہ نمبر ۱۴۷]

راجپوت قوم کی کم و بیش ۳۶۸۴ بڑی شاخیں ہیں جبکہ ان شاخوں کی ۶۰۰۰ کے لگ بھگ گوتیں ہیں۔ ریاست جموں کشمیر میں بھی ابتدائی اصل ذاتوں اور گوتوں میں انقلابِ زمانہ کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ میں مختلف القاب، عہدوں اور مخصوص امور کی سرانجام دہی کرنے والوں نے اپنے اپنے مناصب کے عنوان کو اپنی ذات اور گوت قرار دیا۔ اور یوں نسلاً بعد نسلاً بزرگوں کا پیشہ یا عمل آنے والی نسلوں کی قومیت اور گوت قرار پا گیا۔ کشمیر کی وید بھاشا جاننے والے پنڈت کہلاتے تھے جبکہ مسلمان علماء خواجہ، شیخ، ملا، سید، پیر، قاضی وغیرہ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ ذاتی خوصیات بھِی گوت کی صفت میں ڈھل کر مختلف طبقاتِ آبادی میں مختلف گوتوں کو جنم دے گئیں۔ مثلاً مسکین [غریب]، رشی [عابد]، درویش [فقیر]، پہلوان [ورزش کرنے والا]، بڈا [بوڑھا]، بازاری، وچاری [سوچ کرنے والا]، سپرو [پڑھنے میں پہل کرنے والا]، مشران [مضبوط اور بھاری جسم والا]، رگھو [منحنی]، شالا [گورا آدمی]، لونگو [لنگڑا]، سم جی [سمنجھدار]، کھٹنور [بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا]، کنہ [کان کٹا]، دود [جلی ہوئی پسلی والا]، ننگرو [غریب]، نائوچو [کشتی بان]، ٹھانٹھر [بزاز]، کرال [کمہار]، نیٹو [مٹی کے برتن بنانے والا]، پاٹی گرو [زیور کا دھاگہ بنانے والا]، بخشی [محکمہ دیوان کا افسر]، فوطہ دار [افسر خزانہ]، خرابو [ٹکسال کا افسر]، ناظر [مہتمم لنگر]، مشکی [سقہ]، واز [باورچی]، نہرو [نہروں کے میر منشی یعنی پنجسال نویس]، آگاہ [سبزی فروش]، آرم [سبزی کاشت کرنے والا]، کھنڈ داو [پشیمہ کاشت کاتنے والا]، ڈگرو[چرخہ سے پشم کاتنے والا]، کھار [لوہار]، چھان [نجار]، صراف پوڈور [ریشم نکالنے والا]، شوشہ [کلیجی بیچنے والا]، وانگن [بینگن پیچنے والا]، وکیل۔ باہر سے آنے والے یا اندرون ملک و قصبات سے آنے والوں کے گائوں یا جگہ کی نسبت سے پکارے جانے والے بھی اسی نام کی رعایت سے ایک مخصوص گوت کے حامل ٹھہرے۔

جارے ہے۔۔۔۔۔

نوٹ: مندرجات کتاب صفحات ہذا تاریخ اقوام پونچھ از محمد الدین فوق سے لیے گئے ہیں۔ اور بلاگر کا ان سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں