Posts

Showing posts with the label Notable Mangrals

Hast-o-Bood Part-41

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت رائے عبدالحکیم کی گجرات میں آمد کے وقت اُن کے ہر سہ فرزندان میاں کمال دین، میاں محمد اعظم اور میاں محمد مقصود معہ دیگر اہل کنبہ نقل مکانی کرتے ھوئے اُن کے ہمراہ آئے۔ ظاہر ہے اس قدر طویل سفر کِسی معتد بہ رختِ سفر کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ اُس زمانہ میں باربرداری اور بہ سہولت آنے جانے کے ذرائع بھِی مفقود تھے۔ پھر ہر طرف طوائف الملوکی کا دورہ دورہ تھا۔ اس لیَے پہاڑی راستہ کی کلفتیں اور بیگانہ سرزمین میں منزل بہ منزل قیام کی ناخوشگواری ایک حساس دِل رکھنے والے کو اِس مصیبت زدہ مہاجر کنبہ کے احوال کو سمجھنے کے لیے کسی منظر کشی کی طالب نہیں ھو گی۔ ریاست کی حدود سے نکل کر براستہ بھمبھر پیدل سفر سے افتاں و خیزاں یہ مختصر سا قافلہ سرزمین پنجاب کے سرحدی ضلع گجرات کی تحصیل گجرات کے صدر مقام تک پہنچا اور اولاً شہر کے مضافات میں فروش ھوا۔ یہاں نسبتاً سکون تھا کیونکہ سکھوں کے مستقل قبضہ اور عملداری کے باعث یہاں کا انتظام و انصرام ریاست کے ہنگامہ خیز زندگی سے ہزار درجہ بہتر تھا۔ محنت مزدوری اور روز ی کمانے کے بیسیوں زرائع میسر تھے۔ پھر محنت کے خوگر افراد کے

Hast-o-Bood - Lt. Karam Dad Khan (Late)

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ مولف ریاستی علاقہ میرپور، گلپور اور کوٹلی منگرالاں کی یاترا کے دوران منگرال راجپوت قوم کے متعدد شخصیتوں سے ملا لیکن پھر بھی اس خطہ کی بہت سے برگزیدہ ہستیوں اور صاحب اقبال پیش رو بزرگان کے حالات وقت کی تنگ دامانی اور اُن سے متعلق ریکارڈ یا ذاتی روابط کے فقدار کی وجہ سے حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ بااینہمہ چند ایک باقید حیات افرادِ قوم کے حاصل کردہ مختصر احوال قارئین کے لیے باعث دلچسپی ہونگے۔ {{{نوٹ:  کتاب ہست و بود میں یہاں سے آگے بہت سے بزرگان کا ذکر ہے جو کتاب کی ترتیب سے ہی شیئر کیا جائے گا۔ بلاگر یہاں پر آپ کو پہلے اُس ہستی کا تذکرہ کرانا چاہتا ہے جو کرنل محمود خان صاحب کے دست راست تھے۔ جو نہ صرف کرنل صاحب کے ساتھ ہر محاذ پر ان کے ممدو و مدگار رہے بلکہ 12 اے کے کھڑی کرنے میں بھی آپ برابر کے شریک تھے۔ بلاگر کا اشارہ یہاں مرحوم لیفٹیننٹ کرم داد خان آف گھڑتہ کی طرف ہے۔ ان کا ذکر آپ کو اتنا ضرور بتانا ضروری ہے جتنا علم بلاگر کے پاس موجود ہے۔ میاں اعجاز نبی کی روح سے معذرت کے ساتھ کہ کرنل محمود صاحب کے بعد اگر بطور آرمی آفیشیئل کسی

Hast-o-Bood Part-33

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ قلعہ تھروچی پر مکرر قبضہ کرنے کے بعد کرنل رحمت اللہ ڈوگرہ کمانڈر نے کپتان پریتم سنگھ سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد علاقہ میں گشت کے لیے متعدد پلاٹون بنائیں اور کرنل راجہ محمد محمود خان کی اقامت گاہ کے بالکل ملحق بلکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اپنی فوجی چوکی قائم کر دی تاکہ وہ کرنل صاحب اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمی پر کڑی نظر رکھ سکیں۔اِس چوکی پر گورکھا سپاہی تعینات کئی گئے۔ اب کرنل صاحب کے لیے صورت حالات نہایت سنگین ھو گئِی۔ اگلے دن جب اس چوکی سپاہی تبدیل کرنے کے سلسلہ میں کرنل رحمت اللہ بھِی آئے تو کرنل راجہ محمد محمود خان نے اُن سے تخلیہ میں بات چیت کرنے کی استدعا کی۔ چنانچہ ہر دو نے تھوڑے عرصہ کے لیے بطور مسلم برادران ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل سے سنا۔ کرنل راجہ محمد محمود خان نے کرنل رحمت اللہ کو کہا کہ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ریاست کا حکمران سِکھ ہونے کے باوصف اپنے آباء و اجداد سے سے ہی اسلام کا دشمن ہے۔ اگر اب ہم نے غیر مسلموں کی جابرانہ حکومت سے گلو خلاصی نہ کروائِی تو اس سرزمین میں کشمیری عوام ہمیشہ کے لیے غلامی کی

Hast-o-Bood Part-32

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ اب جہاد کا محور کرنل راجہ محمد محمود خان کا علاقہ گلپور، تھروچ اور کھٹکلی تھا جس کے حدود میں تھروچی کا مضبوط قلعہ ڈوگرہ حکومت کا اس علاقہ میں آخری استعماری نشان تھا۔ اِس قلعہ میں دو پلٹن فورس تھی۔ جس میں سے ایک پلٹن مسلمان سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل تھی جبکہ دوسری پلٹن گورکھا سپاہیوں کی قیادت کیپٹن پریم سِنگھ گورکھا کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن مسلمان پلٹن میں دو افسران کرنل محمد حسین اور کمانڈنٹ کرنل رحمت اللہ تھے۔ اس لحاظ سے ہر دو پلٹنوں کی اعلیٰ قیادت کرنل رحمت اللہ کے پاس تھی جس نے کرنل راجہ محمد محمود خان کو قلعہ تھروچی میں طلب کیا۔ راجہ صاحب کرنل رحمت اللہ کو پہلے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے بلا خوف وخطر اُس کے پاس چلے گئے۔ اُس نے راجہ صاحب سے رسد اور خوراک کی فراہمی کی استدعا کی۔ جو اسلامی اخوت اور جذبہ خیر سگالی کے تحت راجہ صاحب نے مہیا فرما دی۔ اِس پر انہیں کہا گیا کہ وہ لوکل ہندو آبادی سے بھِی فراہمی خوراک کے سلسلہ میں رابطہ قائم کریں۔ چنانچہ وہ اسی بہانہ تمام علاقہ میں حالات کا جائزہ لیتے رہے اور اپنی تنظیم کی سرگرمیوں

Hast-o-Bood Part-31

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Col. Raja Muhammad Mahmood Khan (Late) مہاراجہ گلاب سِنگھ ڈوگرہ نےعلاقہ کوٹلی کے مضبوط ترین قلعہ تھروچی کو اپنی صوابدید کے مطابق پھر سے درست کروایا اور اِس کی جنگی اہمیت، حکومت کی انتظامی گرفت کے پیش نظر اور قوم منگرال کو مطیع رکھنے کی غرض سے یہاں مضبوط فوجی چوکی قائم کی جو تقسیم پاک و ہند تک قائم رہی۔ مملکتِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر میں بھی تحریک آزادی نےانگڑائی لی اور ڈوگرہ غلامی کے جوتے کو اُتار پھینکنے کی جدوجہد زور شور سے شروع ھوئی۔ منگرال راجپوت قومی غیرت اور انتقام کی آک میں پچھلی صدی سے جل رہے تھَے۔ اُن کی بیشتر نفری انگریزی افواج میں بھرتی ھو کر لہو گرم رکھنے کے بہانہ عہدِرفتہ کو آواز دیتی ھوئِی  وقت سے سمجھوتہ کیے ھوئے تھی۔ اکثر فوجی پینشنرز آتشِ زیر پا عزم کی مشعلیں روشن کیے ھوئے تھے۔ کسے خبر تھی کہ قلعہ تھروچی جو سردار ستارمحمدخان منگرال اور اُن کے جیالے ساتھیوں سے بزور شمشیر سِکھوں نے حاصل کیا تھا۔ اُن کے زیرک اور بہادر پڑپوتے کرنل محمد محمود خان کی حکمت عملی اور حسنِ تدبر سے

Hast-o-Bood Part-30

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ تھروچی کا مضبوط قلعہ راجہ سہنس پال جب امور سلطنت سے فارِغ ھوا تو اُس نے ریاست میں ترویج دینِ اسلام اور عوام کے رجحانات کا بہ نظر عمیق جائزہ لینا شروع کیا۔ اسلامی بھائی چارہ، رواداری، تنظیم اور اخلاق نے اُسے انتہائی طور پر متاثر کیا۔ دن بدن غور و خوض اور دلچسپی نے اُسے دینِ برحق کی طرف پورے طور سے راغب کر دیا اور وہ کلمہ پڑھے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس کے دین اسلام قبول کرنے سے کوٹلی کے تمام معتبرین نے مذہب اسلام قبول کر لیا۔ راجہ سہنس پال نے باوجود مسلمان ھوجانے کے اپنا نام تبدیل نہ کیا۔ اپ اُس نے اپنے موروثِ اعلی راجہ مہنگرپال کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے کوہ تلی {پہاڑ کے نیچے} وادی میں کوٹلی منگرالاں نامی بستی آباد کی۔ [1] ۔ اور پوری کوشش سے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مستقل دارالسلطنت کا انعقاد کیا۔ یہاں کی آبادی دن بدن بڑھتی گئِی۔ راجہ سہنس پال کی وفات پر اُس کے چار شہزادوں راجہ دان خان، راجہ تاتار خان، راجہ قندھار خان اور راجہ جانب خان سلطنت کے مختلف اطراف و جوائب میں پھیل گئے۔ راجہ دان خان کے پسر راجہ پریتم خان اور اُن کے صاحب زادے

Raja Muhammad Khalaq (Shaheed)

Image
راجہ محمد خالق خان شہید ( وہ زمانہ میں ایک زمانہ تھے) تحریر: راجہ سکندر راجہ محمد خالق خان عرف سیٹھ راجہ خالق 1953 میں حاجی راجہ ولایت خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی جنم بھومی تحصیل و ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کی مردم خیز دھرتی کلاہ اٹھروئیں ہے۔ آپ حاجی راجہ ولایت خان کی اولاد میں چوتھے نمبر پر تھے۔ آپ کے والد ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کہ باوجود اپنے قبیلے منگرال راجپوت میں خاصہ اثر رسوخ رکھتے تھے۔ راجہ محمد خالق خان نے سکینڈری تک تعلیم حاصل کی لیکن آپ تعلیم سے زیادہ کاروبار میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تعلیم کو چھوڑا اور کاروبار میں لگ گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آپ ضلع کوٹلی کے بڑے کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ راجہ محمد خالق خان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انجمن تاجران ضلع کوٹلی نے متفقہ طور پرصدر منتخب کیا۔ انجمن تاجراں کا اپ کو صدر بنانے کافیصلہ درست ثابت ہوا اور آپ نے تاجروں کے مسائل حل کروانے کے ساتھ ساتھ ان کے باہمی اختلافات کو بھی ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ تا دم مرگ انجمن تاجران کے صدر رہے اور اپنی صلاحیتیں لوگوں کے مسائل کے

راجہ عظیم خان مرحوم ریٹائرڈ ایس ڈی ایم اور معروف قانون دان

Image
راجہ عظیم خان مرحوم ریٹائرڈ ایس ڈی ایم اور قانون داد فگوش “منگرال راجپوت خاندان کی قابل فخرشخصیت علاقہ فگوش کی پہچان راجہ محمد عظیم خان مرحوم ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر اور معروف قانون دان”۔  عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر                    دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ۔ منگرال راجپوت راجہ منگرپال کی اولاد جو منگرال کہلواتی ہے، آج بھی ریاست جموں و کشمیر میں پوری آب و تاب کے ساتھ آباد ہے اور ریاست کے چند بڑے قبائل میں شمار کی جاتی ہے۔   آزاد کشمیر میں ضلع کوٹلی کے علاقے سہنسہ،سرساوہ، مقبوضہ کشمیر میں راجوری اور نوشہرہ کے علاوہ اوڑی،  اور مینڈھر کے علاقے منگرال قبیلے کے بڑے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ضلع کوٹلی میں منگرال قبیلے کے بڑے بڑے گاؤں میں ایک گاؤں فگوش بھی آتا ہے جہاں صدیوں سے منگرال قبائل بسے چلے آ رہے ہیں۔اِسی منگرال قبیلے کے گاؤں فگوش سے ایک عظیم منگرال اور دانشور شخصیت جناب راجہ محمد عظیم خان کا نام آتا ہے جو نہ صرف فگوش بلکہ ریاست کے اند دیگررمنگرال قبیلوں میں ایک اعلی، بااثر سیاستدان اور قابلُِ فخر شخصیت تصور کیۓ جاتے تھے۔  میرے نہایت قابلِ عزت و احترام شخصیت جناب راجہ م