Hast-o-Bood - Lt. Karam Dad Khan (Late)

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ


مولف ریاستی علاقہ میرپور، گلپور اور کوٹلی منگرالاں کی یاترا کے دوران منگرال راجپوت قوم کے متعدد شخصیتوں سے ملا لیکن پھر بھی اس خطہ کی بہت سے برگزیدہ ہستیوں اور صاحب اقبال پیش رو بزرگان کے حالات وقت کی تنگ دامانی اور اُن سے متعلق ریکارڈ یا ذاتی روابط کے فقدار کی وجہ سے حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ بااینہمہ چند ایک باقید حیات افرادِ قوم کے حاصل کردہ مختصر احوال قارئین کے لیے باعث دلچسپی ہونگے۔


{{{نوٹ:  کتاب ہست و بود میں یہاں سے آگے بہت سے بزرگان کا ذکر ہے جو کتاب کی ترتیب سے ہی شیئر کیا جائے گا۔ بلاگر یہاں پر آپ کو پہلے اُس ہستی کا تذکرہ کرانا چاہتا ہے جو کرنل محمود خان صاحب کے دست راست تھے۔ جو نہ صرف کرنل صاحب کے ساتھ ہر محاذ پر ان کے ممدو و مدگار رہے بلکہ 12 اے کے کھڑی کرنے میں بھی آپ برابر کے شریک تھے۔ بلاگر کا اشارہ یہاں مرحوم لیفٹیننٹ کرم داد خان آف گھڑتہ کی طرف ہے۔ ان کا ذکر آپ کو اتنا ضرور بتانا ضروری ہے جتنا علم بلاگر کے پاس موجود ہے۔ میاں اعجاز نبی کی روح سے معذرت کے ساتھ کہ کرنل محمود صاحب کے بعد اگر بطور آرمی آفیشیئل کسی کا نام آنا ضروری تھا تو وہ کرم داد خان صاحب تھے۔ بلاگر یہاں کتاب کے منہہ میں اپنا لقمہ دینا مناسب سمجھتا ہے۔}}} 


لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان

راجہ کرم داد خان بیسویں صدی عیسوی کے شروع میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی صحیح تاریخ پیدائش کسی کو بھی معلوم نہ ہے۔ آپ کے والد راجہ روڈا خان گڑھوتہ میں درمیانے درجے کے زمیندار تھے۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ گاؤں میں ہی گزرا۔ راجہ روڈا خان نے اپنے بیٹے کی پرورش ناز و نعم سے کی۔ 

راجہ کرم داد خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ لوہر مڈل سکول کٹھاڑ سے حاصل کی۔ابتداً آپ کھیتی باڑی میں اپنے والد کاہاتھ بٹانا چاہتے تھے۔ ابتدائی عمر میں آپ گھر پر ہی رہے اور 1930ء میں آپ برٹش آرمی میں بحیثیت سولجر بھرتی ہوگئے۔ والد صاحب کی خصوصی ہدایت تھی کہ آپ ہر کام وقت پر کیا کریں۔ آرمی میں آپ اس اُصول پر کار بند رہے اور ترقی آپ کے قدم چُومتی رہی۔

  آپ 1945   میں برما کے محاذپر خدمات انجام دے رہے تھے۔ برما کے محاذ پر آپ نے بہادری کے جوہر دکھا ئے اورحکومت برطانیہ نے آپ کو بہادری کے تمغہ سے نوازا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر آ پ نے برٹش آرمی سے ریٹائر منٹ لے لی۔ آپ بحیثیت صوبیدار ریٹائر ہوئے۔ آپ کی ریٹائر منٹ کے ساتھ ہی ریاست میں تحریک ِآزادی نے زور پکڑا۔آپ ایک منظم آرمی میں خدمات سرانجام دے چکے تھے اور جنگی حکمت عملی سے خوب واقف تھے آپ اس تحریک میں کس طرح پیچھے رہ سکتے تھے۔ 

1947-48ء میں تحریک کے دوران میں آپ نے سہنسہ میں تحریک ِآزاد یِ کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سہنسہ کی ڈوگرہ فوج سے آزاد ی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کے دستہ میں جہاں مجاہدین کی بڑی تعداد شامل تھی وہاں آپ کے ساتھ کیپٹن نتھا خان، صوبیدار سردار بارُو خان جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ آپ تمام ہدایات کرنل راجہ محمد محمود خان سے حاصل کرتے تھے۔ 

جنگ ِ آزادی کے بعد آپ نے 12AKمیں شمولیت اختیار کی اور پاکستان آرمی سے بحیثیت لیفٹیننٹ ریٹائر ہوئے۔آپ نے کچھ عرصہ سولجر بورڈ میں بحیثیت آرمی ویلفیئر آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اپنے دور کے بہت سے پیچیدہ کیسز حل کروائے۔آپ بقیہ تمام عمر گھر پر ہی رہے۔ 

آپ بڑے بااُصول، بارُعب اور سخت گیر موقف رکھنے والے شخص تھے۔ آپ جس بات پر اڑ جاتے وہ کر کے ہی دَم لیتے تھے۔ آپ کے دوبیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے راجہ محمد سلیم خان 1968ء میں ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ گئے جب کہ چھوٹے بیٹے راجہ محمد نواز خان 1986ء میں انگلینڈ گئے۔ آپ کے دونوں صاحب زادے انگلینڈ میں مسلم کمیونٹی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔
 لیفٹنٹ کرم داد خان آف کیری گڑھتہ کے ایک شریک حیات ناڑہ کوٹ کے نارمہ فیملی سے تھی جن میں مشہور شخصیت راجہ راجہ گلریز خان اور ان کے خاندان  کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس خاندان کے مشہور شخص سابقہ ٹکٹ ہولڈر راجہ گلریز خان 1960ء، میں نائب صوبیدار محمد اکرام خان پگھاں والے راجپوت نارمہ راجپوت کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی دارفانی سے رخصت ہونے کے بعد آپ کے  ایک بھائی کپٹن راجہ پرویز خان نے آپ کی یاد میں ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی۔ اور اس کو آپ کے نام سے منسوب کیا۔ گلریز ویلفیئر ٹرسٹ حلقہ چار چڑھوئی میں سب سے زیادہ ایکٹیو این جی او ہے جو تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے۔ ہزاروں یتیم و غریب بچے اس فاؤنڈیشن کے زیر سانہ تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

کپتان راجہ پرویز خان نارمہ  کا تعلق 11اے کے سے تھا۔ آپ نے 1964ء میں پاک آرمی کو بطور سپاہی جوائن کیا۔ آپ نے تعلیم دوران سروس ہی حاصل کی اور اپنی یونٹ کو 5سال بطور انچارج صوبیدار میجر تاکپتان سرو کیا۔ آپ کی اس دوران تعیناتی بطور ایڈمن آفسر وزیر اعظم پاکستان بھی رہی۔ جبکہ محترمہ شہید بی بی بے نظیر بھٹو اس وقت وزیر اعظم تھیں۔ آپ کو آپ کی ملٹری خدمات کے نتیجہ میں تمغہ ملٹری ون سے نوازہ گیا۔ لیفٹنٹ کرم داد خان آف گھڑتہ کیری کے گھر کپتان صاحب کی سگی پھوپھی تھیں۔ اس کے علاوہ اس خاندان کے رشتہ ناتے کرنل محمود مرحوم کے خاندان سے بھی ہیں۔ کپٹن مظفر شہید  پنجن بالاکی فیملی سے بھی آپ کے رشتہ ناتے ہیں۔

اس نارمہ خاندان کا تعلق ذیلدار خاندان سے ہے۔ کپتان صاحب کے پردادہ جعفر علی خان ذیلدارتھے۔ راجہ اقبال خان سابقہ ٹکٹ ہولڈر حلقہ چار چڑہوئی آپ کے چچازادوں میں سے ہیں۔ اس خاندان میں اس وقت پانچ لڑکے ڈاکٹر، سولہ لڑکیاں انگلستان اور پاکستان میں ایڈووکیٹ ہیں۔اور پانچ ہی لڑکے وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ اس خاندان میں مشہور لوگ، راجہ فضل رحمان پرنسپل، راجہ بنارس خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ آزاد کشمیر، راجہ توقیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، راجہ عثمان ایڈووکیٹ انگلستان، راجہ مظہر ایڈووکیٹ انگلستان، راجہ بابر کمال ایڈووکیٹ  ہائی کورٹ آزاد کشمیر،ڈاکٹر یاسر خان انگلستان، ڈاکٹر رحیم خان آزاد کشمیر، ڈاکٹر زین راجہ آزاد کشمیر، ڈاکٹر عمان انگلینڈ۔ درج بالا نارمہ فیملی کا ذکر ضمناً رشتہ داری منگرال راجگا ن کی وجہ سے آیا ہے۔

لیفٹنٹ راجہ کرم داد خان دمہ کے مرض میں مبتلا تھے، کچھ عرصہ بسترِ مرگ پر رہے۔ آپ 22اکتوبر 1960ء میں اس دنیا فانی سے کُوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں جگہ عطا فرمائے۔آپ کی وفات سے جہاں آپ کاخاندان اپنے بزرگ سے محروم ہوا وہاں منگرال قبیلہ بھی ایک دلیر اور مدبر ہستی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ قوم آپ کے کارناموں پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔


بلاگر نے اپنی ذمہ داری پر کتاب کی فہرست سے ہٹ کر مرحوم لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان صاحب کا یہ مضمون اپنے علم کے مطابق لکھا ہے جس پر بہرحال اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔ آپ لوگوں سے معذرت کے ساتھ میں ایک عظیم شخص کو اُسی جگہ رکھنا پسند کرونگا جو اُس کا مقام ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15