Hast-o-Bood Part-34

باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ


میجر راجہ الف خان منگرال
آپ 1895ء میں راجہ طالع مہندی منگرال کے ہاں موضع فتح پور تحصیل و ضلع میر پور میں تولّد ھوئے۔ خاندان میں باوجود ریاستی وسائل تعلیم کی کمی اور ڈوگرہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے محدود سہولتوں کے مہیا کیے جانے تعلیمی رجحان موجود تھا۔ ابتدائی تعلیمک کے بعد سال 1914ء میں میٹرک پاس کیا اور عملی زندگی میں افواج ہند میں بطور سپاہی کلرک سال 1915ء میں شامِل ھوئے۔ پڑھے لکھے تو تھے ہی اپنی محنت، دیانت اور اطاعت شعاری سے یکم اپریل 1921ء کو فرسٹ پنجاب رجمنٹ میں حوالدار نائک بنائے گئے۔ اپنی اعلی فوجی استعداد اور فنی مہارت کی بنا پر حکومت برطانیہ کی طرف سے دو پشت تک کے لیے مبلغ 5 روپے مہوار جنگی انعام حاصل کیا اور یکم اکتوبر 1931ء میں بطور جمعدار ترقیی یاب ھوئے۔ اسی عہدہ سے 24 فروری 1940ء میں ریٹآئر ھوئے۔

لیکن دوسری جنگِ عظیم کے دوران 30 ستمبر 1941ء کو پھر فوج سے طلبی ھوئی اور انہیں فرسٹ پنجاب ریجمنٹ میں 10 جنوری 1942ء کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ ترقی دے دی گئِی۔ بعد میں 25 نومبر 1947ء کو انہیں عارضِی میجر بنایا گیا اور بعد میں وہ اپنی سابقہ عہدہ کی پنشن پر ہی واپس گھر آ گئے۔

میجر راجہ الف خان باوقار اور پرکشش شخصیت کے حامل ہیں۔ انہیں اپنی پرانی خاندانی اقدار کے تحفظ کا شدت سے احساس ہے۔ انہوں نے ریاستی ریکارڈ کے عدم تحفظ اور اپنے آباء و اجداد کے تہذیبی ورثہ کی تلفی پر انتہائی تشویش کا اظہار فرماتے ھوئے نومبر 1955ء کے ماہنامہ "نظام تعلیم سیالکوٹ" کا شمارہ پیش کیا جو ان کی دانست میں ان کے پاس اپنی خاندانی ابتدائی تاریخ کا واحد ماخذ تھا اور جس میں وادی سہنسہ پر ایک مضمون اُس زمانہ میں میر پور میں متعین ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکول کی طرف سے شائع ھوا تھا۔

موجودہ دور میں جب کہ پرانی اقدار دَم توڑ رہیں ہیں میجر صاحب جیسے بزرگ غنیمت ہیں کہ پچھلے وقتوں کے لوگ کہلاتے ھوئے بھی اپنی مخصوص زمرہ اور منفرد خصوصیات کے نشان ہیں اور قدیم عظمتوں کے داستان گو بھی، کہ یہی حقائق تواریخ عالم کی روح میں ؛

ہَوا ہے گو تُندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیَے ہیں انداز خسروانہ

میجر راجہ الف خاں منگرال کے چار پسران راجہ محمد صدیق خان، راجہ محمد ریاض خان، راجہ محمد فیاض خان اور راجہ محمد الیاس خان ہیں۔

راجہ محمد صدیق خان
آپ میجر راجہ الف خان منگرال کے بڑے صاحب زادے ہیں۔ آپ 28 اکتوبر 1932ء کو پیدا ھوئَے۔ گھر سے ہر طرح سے فراغت تھی۔ آپ بچپن ہی سے ایک ہونہار طالب علم تھے۔ ابتدائی تعلیم اور میٹرک پاس کرنے کے بعد گارڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا۔ یہیں سے بی اے پاس کیا۔ بعد میں لاء کالج لاھور سے سال 1959ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل ضلعی صدر مقام میر پور میں سرکردہ ایڈووکیٹ ہیں۔ قانونی مشغلہ کے علاوہ قومی امور میں بھِی گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ روشن خیال اور پرکشش شخصیت کے حامل فردِ قوم ہیں۔ اپنے سکونتی موضع فتح پور سے مستقلاً اپنی کوٹھِی نمبر بی-2054 کچہری روڈ میرپور میں منتقل ھو چکے ہیں۔ اُن کے والد بزرگ بھِی انہیں کے پاس اقامت گزِیں ہیں۔ راجہ محمد صدیق خان کے واحد پسر راجہ محمد عمر ہیں۔

راجہ محمد الیاس خان منگرال
آپ راجہ الف خان منگرال کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ آپ 12 نومبر 1952 ء کو پیدا ھوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے بے۔اے گورنمنٹ کالج میر پور سے کیا اور لاء کالج لاھور میں سال 1973ء میں داخلہ لیا۔ وہ بھی اپنے سب سے بڑے بھائی راجہ محمد صدیق خان کی طرح وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے متمنی ہیں۔ فارغ اوقات میں اُن کا مشغلہ کرکٹ کھیلنے کے علاوہ باغ بانی بھی ہے۔ اِس خاندان نے گدو بیراج سکھر میں بھی موضع بتھہ تعلقہ پنوں عاقل ضلع سکھر میں ایک صد ایکڑ زرعی اراضِی حاصل کر رکھی ہے۔ جہاں میجر الف خان منگرال کے دیگر دو پسران راجہ محمد ریاض خان اور راجہ محمد فیاض خان زمیندارہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ راجہ محمد ریاض خان بھِی شادی شدہ ہیں اور اُن کے 3 پسران راجہ قمر ریاض، راجہ طلعت ریاض اور راجہ عامر ریاض ہیں۔

لیفٹیننٹ کرنل راجہ محمد سرور منگرال
آپ مورخہ 13 جولائی 1936 ء کو راجہ نورداد خان منگرال کے ہاں پیدا ھوئے جن کی پہلی اولاد پنشنر صوبیدار راجہ الف خان منگرال تھے۔  لیفٹیننٹ کرنل راجہ محمد سرور نے ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک اور سال 1959ء میں ایف اے پرائیویٹ طور پر کیا۔ اس سے پہلے وہ سال 1957ء میں کیڈٹ اکادمی کاکول میں داخل ھوئے جہاں سے سال 1959ء میں وہ ایک کامیاب کیڈٹ کی حیثیت سے پاس آئوٹ ھوئے۔ مورخہ 18 اکتوبر 1959ء کو وہ بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ 20 پنجاب ریجمنٹ میں تعینات ھوئے۔ سال 1961 ء میں بطور لیفٹیننٹ انہوں نے باجوڑ آپریشن میں نمایاں کردارادا کیا اور وہ ایک فرض شناس، زیرک اور بہادر فوجی افسر کے طور پر اُبھرے۔ سال 1962ء میں وہ کپتان کے عہدہ پر ترقی یاب ھوئے، اس حیثیت میں بھی ستمبر 1965ء کی جنگِ کشمیر میں انہوں نے انفرادی حیثیت کے حامل کردار کا مظاہرہ کیا اور نظم و فسق اور اعلیٰ فوجی مہارت کی مثال قائم کی۔ سال 1967ء میں انہیں میجر بنا دیا گیا۔ سال 1968ء میں انہیں سٹاف کالج کوئیٹہ میں متعین کیا گیا۔ جنگ 1971ء میں وہ سلیمانکی سیکٹر میں داد شجاعت دیتے رہے۔ اور متعدد معرکوں میں ہندوستانی افواج کے چھکے چھڑائے۔ سال 1974ء میں وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدہ پر متمکن ھوئے۔ آج کل وہ کمانڈنٹ آفیسر 47 پنجاب ریجمنٹ لاھور چھائونی ہیں۔ کرنل صاحب ایک انتہائی دلیر افسر، محب وطن پاکستانی، منکسر المزاج انسان، مخلص دوست اور ہمدرد قوم فرد ہیں۔ اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کے اپنے اور پرائے سبھی مدح خواں ہیں۔ منگرال قوم کو اِن پر بجا طور پر فخر ہے کہ وہ آبائی پیشہ سپہ گری کی آبرو کے نگہبان ہیں۔ اُن کے دو پسران راجہ ندیم سرور اور راجہ عثمان سرور ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

راجہ سرور خان موضع بنی سانگ ڈڈیال کے رہنے والے راجپوت گھرانے سے تھے لیکن وہ منگرال نہیں تھے. لیفٹینٹ کرنل سرور خان میجر الف خان کے داماد تھے. اور ایک کار  حادثہ میں اپر اپر جہلم میں ڈوب کر رحلت فرما گئے تھے. 
نوٹ بلاگر کا کتاب کے متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں  ہے۔

Comments

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete

  2. لیفٹیننٹ کرنل سرور خان دراصل میجر راجہ الف خان کے داماد تھے. مصنف نے لاعلمی سے انہیں منگرال فیملی میں سے ظاہر کیا. کرنل صاحب ایک کار حادثہ میں نہر اپر جہلم میں ڈوب کر جانبحق ھو گئے تھے. ان کی ایک بیٹی انگلینڈ میں لانک شائر مقیم ہے. جبکہ الف خان صاحب کی اولاد انگلینڈ سٹوک میں آباد ہے. بڑے بیٹے صدیق خان فوت ھو چکے ہیں اور باقی بقید حیات ہیں.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15