Hast-o-Bood Part-38
باب ششم
سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان
سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان
ضلع گجرات صوبہ پنجاب کے دو دریائوں چناب اور جہلم کے دوآبہ میں واقع ہے اور اپنی منفرد تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ سکندراعظم کے حملہ ہند کے دوران اِس علاقہ کا حکمران راجہ پورس تھا۔ اِس ضلع کی تحصیل کھاریاں کے پہاڑی سلسلہ پبی کا موجودہ بلاپمیوو علاقہ جو اُس زمانہ میں "پاٹہ کوئی" کہلاتا تھا راجہ پورس کا پایہِ تخت تھا۔
عہد مغلیہ میں شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر اعظم کے زیر فرمان ایک سربرآوردہ فرد [1] وڈھیرا مہتہ کا کائل نے گجرات کی بستی کو جو ایک بڑے سے مٹی کے ٹیلے کی صورت میں تھی ایک پررونق شہر کی حیثیت دینے اور بادشاہ یا شہزادگان کے سفرِ کشمیر جنت نظیر کے دوران شاہی قیام گاہ یا درمیانی منزل کا شرف بخشنے کی خاطر اِس ٹیلے پر ایک پختہ حصار کی تعمیر کروائی۔ جس میں علاوہ رہائشی عمارات، مسجد، حمام، ڈھکی اور باولی برائے بہم رسائی آپ بھی بنوائے گئے۔ اِس قلعہ کی فصیل معہ متعدد بروج تعمیر ھوئی۔ قلعہ کے جنوب مشرق کی جانب اِس سے ملحق شاہی بارود خانہ کی تعمیر کی گئِی اور ایک محلہ کی صورت میں چند مکانات کی تعمیر برائے رہائش حکام و ملازمین سرکار عمل میں لائی گِئی۔ محلہ کے سرے سے ایک ایک پختہ کنواں موسوم "دیوان دالا" احداث ھوا جس کا پانی نہایت خوش ذائقہ اور فرحت بخش تھا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد اِس کنواں کو پاٹ دیا گیا۔
اولاً اردگرد قلعہ آبادی کی خاطر گردونواح سے قوم گوجر کے افراد کو لاکر آباد کیا گیا اور یوں اس آبادی کا نام گوجر ذات پڑ گیا۔ جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ گجرات کہلائی۔ شدہ شدہ ملحقہ دھات اور اطراف سے اہل ہنر و فن، کاریگر، چیدہ چیدہ زمیندار مصاحب اور بے گھر مزدور طبقہ نے اِدھر کا رخ کیا اور قوت لایموت کے حصول میں سرگرمِ کار ھوگئے۔ اُن کی ایک خاصی تعداد نے قلعہ کے گردونواح میں چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا لیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس جگہ کی رونق بڑھتی چلی گئی۔ اِس جگہ کی اہمیت اِس لیے بھِی زیادہ تھِی کہ یہ بستی شاہراہِ شیرشاہ سوری پر واقع ہے اور سیاحوں کے شمال مغرب سے جنوب مشرق کو آنے جانے کے لیے ایک پڑائو کی سہولت مہیا کرتی تھی۔ دوسرے ریاست جموں کشمیر کی وادی میں داخلہ کے لیے بھمبر کے راستے جانے والوں کو قدرتی مناظر سے پُر گزرگاہ پیش کر کے جنتِ نگاہ کی اِس اساس سے نوازے کی داعی تھی۔ چنانچہ شاہانِ مغلیہ اور شہزادے جب بھی کشمیر جنت نظیر کی سحر آفرینیوں سے بہراندوز ھونے کے لیے سفر اختیار کرتے تو اُن کا شاھی قافلہ راستہ میں گجرات اور اُس کے مضافات کو اپنے پڑائو کے لیے ضرور منتخب کرتا۔
اُس زمانہ میں دریائے چناب گجرات شہر کے مشرقی جانب شاہدولہ دروازہ سے ملحق بہتا تھا۔ شہر سرکلر روڈ کے اندر متعدد دروازوں میں گول فصیل سے گھِرا ھوا تھا۔ اِن دروازوں کا محلِ وقوع کا علاقہ آج بھِی سابقہ ناموں سے موسُوم ہے۔ شاہدولہ دروازہ تو آج بھی اپنے قدیم سج دھج سے مزین اپنی قدامت پر نازاں اور سرافروز ماضی کے نقوش کا امین ہے۔ جب کہ اِس کے دوسرے ساتھی دروازے وقت کی دھاروں میں بہہ کر نِشانِ عبرت بنتے ھوئے معدوم ھو گئے اور اپنی مخصوص جگہوں کو کالری دروازہ، کابلی دروازہ، ڈھکی دروازہ، اور شیشیانوالا دروازہ کا نام دے گئےہیں۔ آج اِن میں سے ہر ایک کا محلِ وقوع زبانِ حال سے گویا ہے کہ ؛
دیکھو مجھے، جو دیدہ نگاہ ھو
پُختہ فصیل جو کسی زمانہ میں تمام شہر کو محیط کیَے ھوئے تھِی دست بُرو اور شکست و ریخت زمانہ کی نذر ھو چکی۔ دریائے چناب اب شہر سے قریباً 6 میل دور جا چکا ہے اور اِس کی واحد نشانی جسے کچھ عرصہ پہلے نالی شاہدولہ صاحب کا نام دیا گیا تھا بھی سمٹ کر مختصر سی بدررو میں تبدیل ھو چکی ہے اور شہر کی عام گلیوں کا ایک جزو بن چکی ہے۔ دریا کی موجودگی میں اُس کے کنارے شہر کو گنگا جمنی رُوپ دیئے ھوئے تھے اور سبزہ ساحل کے علاوہ موسم بھِی خُنکی کی آمیزش شہر کی فضآ کو معتدل بناتی تھی۔ خوبصورت فطری مناظر، خوشگوار آب و ھوا، صحت مند ماحول ہر ذی روح کے لیے خوش آمدید کا پیام تھا۔ گویا؛
کِرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں چاست
ایسی روح پرور فضا میں اِس خطہ یونان میں برگزیدہ ہستیوں کا آسودہ خاک ھونا بھی تشنگانِ فیوضِ روحانی کے لیے ایک خاص کشش کا موجب بنا جس سے اطراف و جوانب سے اصحابِ معرفت کچھے چلے آتے رہے۔
اِس سلسلہ میں موضع بڑیلہ میں سیدنا آدم علیہ السلام کے فرزند قابیل کی ستر گز لمبی قبر کی نشاندہی ھوتی ہے۔ لیکن بعض روایات کے مطابق یہی قبر نوح علیہ السلام کے فرزند سے منسوب ہے۔ [2]
جاری ہے ۔۔۔۔۔
[1] ۔۔۔۔۔ تذکرہ شاہدولہ از ایس ایم نسیم چوھدری
[۲] ۔۔۔۔۔ تذکرہ شاہدولہ از ایس ایم نسیم چوھدری میں نام موضع کبیلہ درج ہے۔ ایسے نام کا کوئی موضع گجرات میں نہیں ہے۔
[۲] ۔۔۔۔۔ تذکرہ شاہدولہ از ایس ایم نسیم چوھدری میں نام موضع کبیلہ درج ہے۔ ایسے نام کا کوئی موضع گجرات میں نہیں ہے۔
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
Good
ReplyDelete