Hast-o-Bood Part-37


باب پنجم
راجہ سہنسپال خان اور اُن کے ورثاء


Mian Muhammad Asghar, Gujrat Book Dept.


راجہ سہنسپال کے دور سلطنت میں قوم منگرال راجپوت کی غالب اکثریت ضلع میر پور کی تحصیل کوٹلی کے موضعات کوٹلی، تھروچی، بھیڑیاں اور براٹلہ کے علاوہ تحصیل سہنسہ اور گرد ونواح کے علاقہ میں قیام پزیر تھی۔ کوٹلی پہلے تحصیل کا صدر مقام تھا۔

راجہ سہنسپال کے چاروں پسران [1] رائے دان خان، رائے تاتار خان، رائے قندھار خان اور رائے جانب خان اپنی اولاد کے ہمراہ انہی موضعات میں مقیم رہے۔ اِن میں سے رائے قندھار خان  لاولد فوت ھوگئے اور بقیہ برادران صاحب اولاد ھوئے۔ ہمیں چونکہ منگرال راجپوت خاندان مقیم گجرات کا ہی تذکرہ اِس تالیف میں مقصود ہے صرف انہی ناموں کا اعادہ خصوصیت سے کیا جائے گا جن کی کڑیاں رائے عبدالحکیم سے مِلتی ہیں۔

رائے تاتار خان کے چار پسران میں سے رائے سرفراز خان اور اُن کے تین صاحبزادوں میں سے رائے ذاھد خان اور اُن کے دو لڑکوں میں سے پسرِ بزرگ رائے سداد خان اور اُن کے تین پسران خوردین پسر رائے بخش خان اور اُن کے واحد فرزند رائے مکو خان اور اُن کے اکلوتے لڑکے رائے محبت خان سے نسل منگرال بڑھتی چلی گئی۔ رائے محبت خان کے بڑے لڑکے رائے حبیب خان کے دو صاحبزادے تھے جن میں چھوٹے پسر رائے عبدالواحد کے اکلوتے فرزند رائے عبدالحکیم نے ریاست سے ہجرت فرمائی۔ اور اِس لحاظ سے گجرات میں ہجرت کر کے آنے والے کنبہ منگرال راجپوت کے یہی موروثِ اعلیٰ ہیں۔ بقیہ جملہ بزرگوں کی اولاد کی اکثریت ابھِی تک حدود ریاست میں ہی اقام گزیں ہے۔

جملہ معلومات دربارہ ورثآء راجہ سہنس پال تا رائے عبدالحکیم اُس مصدقہ شجرہ نسب سے لی گئی ہیں جو 30 مارچ 1916ء کا تیار شدہ ہے اور جس کی تصدیق منگرال قوم مقیم ریاست کے سربرآور افراد راجہ شہامت علی خان سکنہ تھروچی، راجہ غلام احمد خان، راجہ باقر علی خان، صوبیدار پینشنر راجہ دوست محمد خان اور راجہ غلام احمد خان ذیلدار نے فرمائی۔ اور اِس کی مزید تصدیق کوٹلی کے تحصیلدار صاحب نے فرمائی۔ گجرات میں مقیم افراد کے ناموں کا اندراج حسبِ تصدیق منشی میاں محمد اشرف ھوا جو اپنے حقیقی چچازاد بھائی میاں محمد سردار خان کی معیت میں ریاست میں اپنے آباء و اجداد کی گمشدہ کڑیاں تلاش کرنے سال 1930 ء میں گئے تھے۔

رائے عبدالحکیم اور اُن کے اہل کنبہ کی بناء ہجرت اور نقل مکانی باب سوم میں بیان ھو چکی ہے۔ انہوں نے گجرات کو کیوں مقام ہجرت انتخاب کیا؟ یہ سوال ایک علاحدہ باب کا مقتضی ہے۔ تاہم بے چارگی میں سفر کی صعوبتوں اور اُن کے نتائج و عوامل کی اِس الہامی حقیقت سے کیسے انکار ھو سکتا ہے کہ جذبہ صادق، حقیقی لگن اور نئی جگہ میں زندہ رہنے اور تابندہ مستقبل کی آرزو میں جُہدِ مسلسل کے آہنگ کو برقرار رکھنے میں عزم اور محنت مہمیز کا کام دیتی ہے۔ سفر اور بے سروسامانی میں سعیِ پیہم اور کشمکشِ حیات میں ستیزہ کار ھونے سے ہی انسانی جوہر کھلتے ہیں۔

قدرِ مردم سفر پدید کند
خانہ خویش مرد رابند است
تابہ سنگ اندروں بود گوہر
کس چہ داند کہ قیمتش چند است

جاری ہے ۔۔۔۔


[1] ماخذ مصدقہ شجرہ نسب زیرتحویل میاں فیاض اصغر چیئرمین درسی ادارہ گجرات۔


نوٹ: کتاب کے کسی بھی متن سے بلاگر کا متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں