Hast-o-Bood Part-39
باب ششم
سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان
سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان
Dargah Shah dola Gujrat
ضلع گجرات کے موضع بوٹا متصل موضع ٹانڈا میں [1] نقیب طوس اولاد بنی اسرائیل کا مدفن بیان کیا جاتا ہے۔ موضع نجان متصل موضع مناورہ میں [2] فعینوش نامی اولاد سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام آسودہ خاک ہیں۔ جبکہ چھمب میں سیدا داود علیہ السلام کی اولاد میں سے فلسانوس کی قبر بتائی جاتی ہے۔ اِن کے علاوہ موضع دٹالہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں ہرشیا نامی کا مدفن ہے۔
شہر گجرات سے 5 میل جانب جنوب قصبہ کنجا میں قدیم صاحب دیوان و مثنوی نیرنگ عشق صوفی شاعر حضرت غنیمت کنجاہی آسودہ خاک ہیں۔ ان کی شہرت اُس دور میں جبکہ وسائل مواصلات آج کے ترقی یافتہ دَور کے مقابلہ میں نہ ھونے کے برابر تھے۔ ملک سے باہر مملکتِ ایران میں بھی بام عروج پر تھی۔ وہ اپنی گراں قدر مثنوی کو شاہِ فارس سے منسوب کرتے ھوئے یوں گویا ھوئے ہیں؛
بنامِ شاھد نازک خیالاں
عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں
عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں
اُس دور میں جبکہ اطراف و جانب میں خود شناسی، فقر و معرفت اور روحانیت کے سرچشمے گمراہ انسانیت کی اصلاح کے لیے مختلف مراکزِ فکرو نظر کا احاطہ کیے ھوئے تھے اور ملک کے متعدد ولایت ھائے روحانی کے مختلف سربراہ موجود تھے۔ گجرات میں جود و سخا کے پیکر صاحب کشف و کرامت [3] بزرگ حضرت سید کبیرالدین شاہدولہ دریائی رح اپنے فیوض و برکات سے تشنگانِ معرفت حق کی پیاس بجھا رہے تھے اور عملی مظاہرہ سے یہ دلنشین حقیقت اہلِ سلوک اور مریدانِ طریقت کے ذہن نشین کرارہے تھے کہ ؛
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
حضرت شاہدولہ دریائی رح کی درگاہ میں دنیا میں موجودگی سے پردہ پوشی تک اللہ والوں کی جائے پناہ اور تسکینِ روح کا سامان مہیا کرتی رہی۔
آج بھی یہ مرجع خلائق ہے اور بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی یہ واحد بارگاہ ہے۔ جہاں زندہ انسان کے چڑھاوے کی نذر مانی جاتی ہے اور ذی روح بچے اور بچیاں نذرانہ کے طور پر صاحبِ مزار کی تولیت میں چھوڑدیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ چھوٹے سر کے فاترالعقل مخلوق آج بھِی "شاہدولہ کے چوہے" کے نام سے موسوم حضرت شاہدولہ دریائی کے صاحبِ کرامت بزرگ ھونے کی تصدیق کرتی ہے۔
دوسرے بزرگ [4] حضرت شاہ جہانگیر سال 1669 ء بدوران سلطنتِ مغلیہ ضلع گجرات کے موضع غازی کھوکھر میں وارد ھوئے۔ انہوں نے اردگرد کے علاقہ میں لوگوں کی اصلاح اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ اُن کے مزار پر جو شہر کے شمال مشرق کی جانب موضع مذکورہ میں شہر سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے ہر سال بکرمی مہینہ اساڑھ کہ پہلی جمعرات کو میلہ لگتا ہے۔ جس میں دور دور سے زائرین حضرات شرکت کرتے ہیں۔ مزار کے احاطہ کے باہر گجرات کی جنگ انگریز مقتولین کی قبریں ہیں جو سال 1849ء کی لڑائی میں کام آئے۔
ضلع گجرات کے موضع حیات میں خانقاہ حافظ محمد حیات رح ہے جو گوجر قوم کے صوفی منش بزرگ تھے۔ موضع نور جمال تحصیل کھاریاں سے اس جگہ اقامت گزیں ھوئے۔ مردِ خدا پرست، عابدِ شب زندہ دار اور صاحبِ خُلق و مروت فرد تھے۔ اُن کے اہل طریقت میں اُن کے گدی نشین خانقاہ اور فقراء ازدواجی زندگی اختیار نہیں کرتے۔ چارپائی پر نہیں سوتے اور نہ ہی مزار کے گرد و نواح میں کسی عورت کو سونے دیتے ہیں۔ اُن کی درگاہ پر ہر سال 9 محرم الحرام کو عرس منعقد ھوتا ہے۔
ضلع ھذٰا کے موضع لکھنوال میں ایک خدا رسیدہ بزرگ باوہ شیخ برھان رح صاھب کا مزار ہے۔ یہ مردِ خودآگاہ فقیر منش صوفی تھے۔ اُن کی دستِ حق پر اہلِ موضع کے موروثِ اعلی مرزا ویر جٹ مشرف با السلام ھوئے اور اِس طرح اُن کی مساعی سے قوم جٹ موضع ھذٰا مسلمان ھوئی۔ اُن کا عرس ہر سال دو بار اسلامی ماہِ شوال کی یکم کو اور پھر ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ھوتا ہے۔
ایک اور موضع میووال میں ایک انسان دوست بزرگ جتی شاہ رحمان رح آج سے قریباً تین سو سال پہلے قیام پزیر تھے جو موضع شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ سے نقل مکانی کر کے ضلع گجرات میں وارد ھوئے۔ اُن کے مرید سید توکل شاہ نے مستقلاً اپنے پیر و مرشد کی گدی پر قیام فرمایا اور اپنے پیر کی علامتی حاضری کے طور پر اُن کے مکان میں آگ کی دھونی جلائے رکھی۔ ہر بارہ سال کے بعد اپنے مرشد کا عرس مناتے اور قیام عرس کے وقت یہ مشہور کر دیا جاتا کہ یہ دھونی بارہ سال تک دبی رہنے کے بعد نکالی گئی ہے۔ یہ عرس ماہِ محرم میں ھوتا ہے۔
اسِ طرح اور بزرگوں کے مزارات بھی ہیں جن میں قصبہ نوشہرہ میں خانقاہ پیر محمد سجاد ہے جو مَلک پیر محمد سچیار کے نوشاہی قفیروں کے سلسلہ سے متعلق تھے۔ اسلامی مہینہ ربیع الاول کی 5 تاریخ کو ہر سال اُن کا عرس کیا جاتا ہے۔ جس میں جالندھر [بھارت]، جموں [و مقبوضہ کشمیر] کے علاوہ ضلع سیالکوٹ سے بھی عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ مزار پیر ایک راگی موجود رہتا ہے۔ ارادت مند حال کھیلتے اور بعض فقیر پائوں میں رسی باندھ کر خود کو درخت پر سے الٹا برابر ایک پہر لٹکائے رکھتے ہیں۔
شہر گجرات کے جنوب مغربی کونہ میں حضرت شاہ حسین کا مزار ہے جو ایک مشہور بزرگِ دین تھے۔ شہر کے جنوب مشرق میں بیگم راج محل دختر راجہ تاج خان حکمران راجوری ریاست کشمیر کا مزار ہے جو آخری مغل تاجدار شہنشاہ محی الدین محمد اورنگزیب کی حرم تھیں۔ اور جن کے بطن سے شہزادہ معظم بلقب بہادر شاہ تولد ھوئے۔ لوحِ مزار سنگ مرمر کی ہے اور اسِ کے اطراف اسمائے الہیٰ کندہ ہیں۔ یہ مزار ایک مسجد میں واقع ہے جو مسجد بیگم پورہ کے نام سے مشہور ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
[1] اور [2] ۔۔۔۔۔ تذکرہ شاہدولہ از ایم ایس نسیم چوھدری
[3] ۔۔۔۔ تاریخ گجرات از مرزا محمد اعظم بیگ، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمیشنر بندوبست، سال 1867-68 صفحہ نمبر 851
[4] ۔۔۔۔ تاریخ گجرات از مرزا محمد اعظم بیگ، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمیشنر بندوبست، سال 1867-68 صفحہ نمبر 882
[3] ۔۔۔۔ تاریخ گجرات از مرزا محمد اعظم بیگ، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمیشنر بندوبست، سال 1867-68 صفحہ نمبر 851
[4] ۔۔۔۔ تاریخ گجرات از مرزا محمد اعظم بیگ، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمیشنر بندوبست، سال 1867-68 صفحہ نمبر 882
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھِی متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
گڈ
ReplyDelete
ReplyDeleteبہت اعلی 🌹🌹ماشاءالله
ماشاللہ ۔ آج کے بلاگ سے بتہ چلا کہ گجرات بھی اولیاءاللہ کا ایک بڑا مسکن ہے۔ اور شاہ دولہ دریائی کا فیض بھی یہی سے جاری ہوا۔
ReplyDelete