Hast-o-Bood Part-36


باب چہارم
ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ


منگرال نوابی
اپنے معزز و محترم بزرگوں کے بلند کردار کو اُجاگر کرنے اور کِسی منفرد مقام کے حصول کی لگن نے افراد اور اقوام کو ہر زمانہ میں نئِی نہج بخشی ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے متمیز کرنے اور بقائے دوام کی آرزو نے ہی افراد اور قوموں کے جداگانہ تاریخ کا احیاء کیا ہے۔ غالبًا یہی وہ جذبہ ہے جو منگرال راجپوت قوم کی ایک شاخ کے نوابی منگرال کہلانے کا محرک بنا۔ منگرال قوم کی یہ نودمیدہ شاخ راجہ جنگ خان منگرال کے ذی اقتدار پسر راجہ نواب خان کے نام سے اب اندرون کنبہ موسوم کی جا رہی ہے۔ جو موضع سرہوٹہ تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی میں ایک معزز و محترم شخصیت تھے۔ تمام گاوں کی اراضِی کی ملکیتی حقوق کے حامل باوقار، صحب الرائے اور سرکاری درباری اثرورسوخ کے مالک بزرگ ھونے کے ناطے سے اُن کے ورثاء نے اُن کو اُن کے نام پر نوابی منگرال کہلانا پسند کیا۔

راجہ نواب خان منگرال کے واحد پسر راجہ روڈا خان بھی علاقہ کے زمیندار ھونے کے علاوہ ایک منجھے ھوئے شکاری تھے۔ ڈوگرہ حکومت میں وہ سرکاری افسران میں جنگلی شکار کے ماہر ھونے کی بناء پر بہت مقبول تھے۔ ڈوگرہ مہاراجہ کی تفریح اور شکار کی مہم میں شریک کیے جاتے اور اپنے علاقہ کے سردار گردانے جاتے تھے۔ اُن کی خدمات سرکار کے عوض اُنہیں ایک تلوار اور متعدد اسنادِ خوشنودی مزاج عطا ھوئیں۔ وہ خود تین ہزار کنال اراضی کے واحد مالک تھے اور ریاست کے بڑے زمینداروں میں اُن کا شمار ھوتا تھا۔ اُن کے دو پسران راجہ زرین خان اور اور راجہ اکرا خان تھے۔
سب سے پہلے شاید راجہ اکرا خان کی اولاد نے ہی خود کو "نوابی" کہلانے کا آغاز کیا۔ راجہ اکرا خان کے سات فرزند علی الترتیب راجہ عجب خان نوابی، راجہ محمد رفیق نوابی، راجہ محمد افضل نوابی، راجہ محمد اقبال نوابی، راجہ طارق پرویز نوابی، راجہ سعید خان نوابی اور راجہ خلیق احمد نوابی ہیں۔ جن کا تفصیلاً تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔ ھو سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی اولادیں یہ حقیقت تک محو کر جائیں کہ وہ کبھی صرف منگرال راجپوت قومیت کے ہی حامل تھے اور یوں لفظ "نوابی" کی آنے والی نسل کے ناموں کے ساتھ تکرار انہیں محض "نوابی" قومیت کی آورد قرار دےدے۔

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

راجہ عجب خان نوابی
آپ موضع سرھوٹہ تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی میں 5 دسمبر 1944ء کو پیدا ھوئے۔ آپ نے میٹرک اسلامیہ ھائی اسکول جہلم سے 1959ء میں کیا۔ ایف اے سال 1961ء میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جہلم سے بی اے سال 1963ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج جہلم  سے اور ایل ایل بی کی ڈگری سندھ یونیورسٹی حیدر آباد سے 1965ء میں حاصل کی۔  اپنی عملی زندگی کا آغاز سال 1966ء سے بطوروکیل کوٹلی سے کیا، جہاں انہوں نے سال 1974ء تک پرائیویٹ پریکٹس کی۔ سال 1975 اور سال 1976 کے دوران وہ بطور عارضِی ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس مظفرآباد آزادکشمیر متعین ھوئے۔ اگست 1976ء سے وہ بطور پراسیکیوٹنگ انسپکٹر پولیس بھمبھر تعینات ہیں۔ وہ ایک باصلاحیت، محنتی، فرض شناس، اور مقتدر پولیس افسر ہیں۔ طبیعت میں اخلاص، صلہ رحمی اور قومی اقدار کے تحفظ کا احساس نمایاں ہے۔ نہایت خلیق اور مروت پیشہ فردِ قوم ہیں۔


راجہ محمد رفیق نوابی
آپ سال 1944ء میں اپنے آبادئِی گائوں سرھوٹہ میں پیدا ھوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سال 1973ء میں بی اے پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔ اُس سے پہلے 1962ء کے اوائل میں جبکہ وہ ایف اے پاس کرچکے تھے بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس مظفرآباد تعینات ھوئے۔ اپنی محنت اور خداداد قابلیت کی بنا پر سال 1971ء میں سب انسپکٹر پولیس کے عہدہ پر ترقی یاب ھوئے۔ اپنی منفرد کارکردگی اور جرائم پیشہ افراد کی نفسیات کو سمجھنے کی غایت درجہ دسترس رکھنے کے باوصف اُن کا شمار ریاست آزادکشمیر کے محدود سے چند اچھے پولیس افسروں میں ھوتا ہے۔ اُن کی اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں اُن کو متعدد تعریفی سرٹیفیکیٹ وقتاً فوقتاً دیے گئے۔ آج کل وہ بطور سٹیشن ھائوس آفیسر میر پور تعینات ہیں۔ اُن کا واحد پسر عامر شہزاد ابھی نرسری کلاس کا طالب علم ہے۔


راجہ محمد افضل نوابی
آپ سال 1946ء مِیں سرھوٹہ میں پیدا ھوئے۔ تعلیم مڈل تک ہے۔ زمیندارہ کی دیکھ بھال کے علاوہ برانچ پوسٹ آفس نیو افضل پور کے پوسٹ ماسٹر انچارج ہیں۔ اپنے گائوں کے نمبردار بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے نام پر موضع نیو افضل پور کی بناء ڈالی۔ جو وادی سہنسہ میں کوٹلی کہوٹہ ضلع راولپنڈی روڈ پر واقع ہے۔ موضع نیوافضل پور سے انہوں نے سرھوٹہ تک قابل سفر جیپ کی سڑک عوام کے استفادہ کے لیے اپنی مدد آپ کے اصول پر بنوائی ہے۔ اِس موضع میں اِس خاندان کے کم وپیش ایک سو کے قریب مملوکہ دکانیں ہیں۔ راجہ محمد افضل ایک ھوٹل اور ایک جنرل سٹور بھی یہیں پر چلا رہَے ہیں۔ غایت آسودگی اور وقار سے گزر بسر کر رہے ہیں۔ 

راجہ محمد اقبال نوابی
آپ سال 1948ء میں موضع سرھوٹہ میں پیدا ھوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد الائیڈ بنک آف پاکستان میں سال 1973ء میں ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ لیکن اس سے اگلے سال یعنی 1974ء میں ہی یہ ملازمت چھوڑ دی۔ اور اپنے والد کی رفاقت میں زرعی اراضیات کی دیکھ بھال اور انتظام میں سرگرم کار ھوگئے۔ یہاں بھی اُن کی سیمابی طبیعت زیادہ دیر نہ جم سکی۔ چنانچہ وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ آج کل وہ مغربی جرمنی میں کسی لیپر فیکٹری میں قوت لایموت کما رہے ہیں۔ اُن کی شادی حال ہی میں ھوئی ہے۔ وہ ایک ذہین، پختہ ارادے کے فردقوم ہیں۔


راجہ طارق پرویز نوابی
آپ سال 1950ء میں موضع سرھوٹہ میں پیدا ھوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک اور ایف اے اور مابعد سال 1974ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج میرپور سے بی اے پاس کیا۔ کالج میں قیام کے دوران ہی سیاسی شعبہ میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ طبیعت میں قیادت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا ہے۔ سیمابی جبلت کی غیر شادی شدہ نوجوان قوم ہیں۔ اُن کا خدنگِ مزاج ہر نوجوان کے لیے کچھ اس دعا کا آئینہ دار ہے کہ۔

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کے تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

راجہ سعید خان نوابی
آپ سال 1952ء میں سرھوتہ میں تولد ھوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سال 1968ء میں میٹرک پاس کیا۔ وطن میں پہاڑی اور مشرقی مناظر زیادہ دیر تک انہیں مسحور کرنے میں ناکام رہے۔ دل میں کچھ کر گزرنے اور نئے جہاں پیدا کرنے کی اُمنگ نے انہیں دیارمغرب کی یاترا پر اکسایا۔ پھر کیا تھا۔ برطانیہ چلے گئے اور وہیں کسی مشینی فیکٹری کے کل پرزوں سے کھیلنے میں آسودگی تلاش کر کے وہیں کے ھو رہے۔ اقبال کا یہ شاہین بچہ اُس کی تعلیم سے بغاوت کر کے دولت کمانے کے لیے اُس کی ریل پیل کے چکر میں کھو گیا اور بھول گیا کہ مفکرِ قوم نے اُس جیسے نوجوان کے لیے ہی کہا تھا کہ ؛
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان

سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر


راجہ خلیق احمد نوابی
آپ راجہ اکرا خان کے خوردسال فرزند ہیں جو 1960 میں بمقام سرھوٹہ  پیدا ھوئے۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد آجکل گورنمنٹ ھائِی اسکول سہنسہ میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ والدین اُن سے غایت درجہ محبت سے پیش آتے ہیں اور وہی ہیں جو اتنے بھائیوں کی موجودگی میں والدین کی آنکھوں کے سامنے ہمہ وقت تسکین روح کا سامان مہیا کرتےہیں۔
اِن افراد کے علاوہ دیگر معتبرین قوم منگرال جن کے حالات زندگی مولف کو دستیاب نہیں ھو سکے کا تذکرہ نہ کرنا قوم کے ان ذی مرتبہ بزرگوں سے ناانصافی کرنا ھو گا۔ اس لیَے اس تالیف میں ان میں سے چند کے ناموں کا اعادہ اس کی کمی کو پورا کرنے میں معاون ھو گا۔ تعلیمی لحاظ سے بھِی اور ملازمتِ سرکار میں بھی اُن کی سول و فوجی خدمات اس امر کی مقتضی ہیں کہ قوم انہیں فخرو مباہات سے یاد رکھے۔


راجہ اکبر داد خان بے اے ریٹائر کلکٹر انسپیکٹر انکم ٹیکس سکنہ سہر منڈی سہنسہ
راجہ رفیع اللہ خان بی اے ایل ایل بی سکنہ موضع گگناڑہ
راجہ فضل داد خان موضع اینٹی راجگان بی اے ایل ایل بی
راجہ عبدالمجید خان بی اے ایل ایل بی سکنہ موضع سہر منڈی
راجہ محمد مطلوب خان، بی اے ایل ایل بی موضع سہرمنڈی
راجہ عبدالرزاق خان ایم بی بی ایس میڈیکل آفیسر سہنسہ سکونتی سہرمنڈی
راجہ شبیر احمد، راجہ امیر داد خان، بی اے و راجہ اختر حسین میڈیکل سٹوڈنٹ اسلام آباد
راجہ محمد نواز خان، بی اے، بنک مینیجر موضع اینٹی راجگان
راجہ محمد ایوب خان، بی اے، ڈپٹی کلکٹر محکمہ ایسائزو ٹیکسیشن سکنہ موضع بھیڑیاں
راجہ محمد عظیم ڈبل ایم اے، سکنہ موضع گگناڑہ
راجہ ریاست خان، بی اے ایل ایل بی، سکنہ موضع سہر منڈی
راجہ عبدالمجید خان، بی۔اے سب ڈویژنل مجسٹریٹ سروٹہ
راجہ عبدالرئوف، بی اے۔ تحصیلدار سروٹہ
راجہ نثار احمد، بی اے۔  ایل ایل بی، وکیل سروٹہ
راجہ عبدالعزیز خان، سی اے، راجہ محمود خان، سی اے، سکنائی سروٹہ وہ گہروٹہ زیرتعلیم انگلستان
راجہ لعل خان، سب پوسٹ ماسٹر سہرمنڈی
راجہ سردارخان مرحوم، او بی آئی کپتان ریٹائر
راجہ محمد مسعود کپتان فوج سکنہ پنجیڑہ
راجہ فرمان علی خان مرحوم، لیفٹیننٹ تمغہ جارج کراس، سکنہ موضع پنجیڑہ
راجہ عبدالرزاق میجر فوج سکنہ سہرمنڈی
راجہ کرمداد خان مرحوم، لیفٹیننٹ فوج سکنہ موضع گھڑوتہ
راجہ علی اکبر خان، لیفٹیننٹ فوج سکنہ تھروچی
راجہ نصیب اللہ خان شہید، میجر فوج سکنہ تھروچی


نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں