Hast-o-Bood Part-42
باب ہفتم
گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت
اپنے منصب کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے رہتے۔ اُن کے خلوص اور کردار کی بلندی سے حکومت اور عوام یکساں متاثر تھے۔ اُن کی معاملہ فہمی اور حکومت کا اُن پر اعتماد علم اُس حکمنامہ سے بخوبی ھو سکتا ہے جو سردار گلاب سنگھ ڈوگرہ سپہ سالار نے اُن کے نام 13 اسوج 1888 بکرمی کو جاری کیا اور جس میں اُن سے اُن کے زیر قبضہ قلعہ گجرات میں بارود کے وزن اور مقدار کی دریافت کی گئی تھی۔ نیز ان میں سے بے کار اور کار آمد بارود کے بارہ میں تخمینہ اور جس مقدار میں جدید بارود قلعہ میں رکھا جانا ضروری تھا کی نسبت استفسار کیا گیا۔
میاں رسول بخش کو قلعہ گجرات سے ملحق چند مکانات بھِی مہاراجہ کے ایما اور حکم سے دیئے گئے جہاں وہ اور اُن کے دیگر افراد کنبہ مقیم تھے۔ یوں وہ مستقلاً اپنے اصل مقام ہجرت میں واپس پہنچ گئے۔ میاں محمد اعظم کے چھوٹے فرزند میاں نورو خان اسی دوران میں مہاراجہ کی گھوڑ سواری کے شوق کے پیش نظر اپنے لیے ایک مختلف میدانِ کارکردگی انتخاب کر چکے تھے۔ انہوں نے لاھور کے مشہور چابکسوار خاندان کے بزرگوں سے شرفِ تلمذ اختیار کرتے ھوئے شاہسواری کے اسرار و رموز سیکھے اور اس میں پوری لگن سے گھوڑ سواری کے ماہر بننے کے لیے سخت محنت سے کام لیا۔ اُن کے اِس شوق کا محرک مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اُس کے ولی عہد کھڑک سنگھ کی اعلی نسل کے گھوڑوں سے انتہائی دل بستگی اور شاہسواروں کی قدردانی تھی۔ اُس زمانہ میں لاھور کا شاہی اسطبل منفرد اور برصغیر میں مشہور تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے مفتوحہ علاقوں سے اچھی نسل کے گھوڑے اگھٹا کرتے تھے اور ہر قیمت پر ایسے جانور ہتھیا لینے میں خودغرضی کی حد تک بدنام تھے۔ جس کی تصدیق مندرج ذیل واقعات سے ھو سکتی ہے۔
اپریل 1806ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ [1] نے تسخیر ملتان کے لیے لشکر جرار کے ساتھ ادھر کا رخ کیا۔ چنانچہ ملتان کا حکمران نواب مظفر خاں قلعہ بند ھو گیا۔ سکھ لشکر بھِی قلعہ کے محاصرہ میں ڈٹ گیا۔ اِس آفت نا گہانی سے چھٹکارہ پانے کے لیے نواب مظفر خاں نے صلح کر لی اور مبلغ 80 ہزار روپے نقد اور 5 اعلی نسل کے گھوڑے پر سوار تعظیم بجا لانے کو آگئے بڑھا۔ مہاراجہ کی نگاہ اُس کے خوبصورت گھوڑے پر پڑی اور اُس کے مصاحبوں نے کمال دُرشتی سے زمیندار کو اپنا جانور مہاراجہ کو پیش کرنے کے لیے حکم دیا۔ اِس پر زمیندار کو غُصہ آ گیا اور اُس نے اپنی تلوار سونت کر مہاراجہ کے ہاتھِی پر اوچھے ترچھے وار بھی کیے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سِکھ سورمائوں نے زمیندار کو گھیرے میں لے کر شدید زخمی کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا اور یوں اُس کے اعلی نسل کے گھوڑے پر تصرف کر لیا۔
اپریل 1820ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ریاست جموں کشمیر میں فوج کشی سے واپسی پر نواب حفیظ احمد خاں آف مانسہرہ کا نہایت ہی خوبصورت گھوڑا "سفید پری" جبراً حاصل کر کے اپنے شاہی اصطبل کی زینت بنا لیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کو شوق اسپِ خواہی اُ سکی ایسی کمزوری تھِی جس کو اُس دور کے انگریز حکمران بھِی بخوبی بھانپ چکے تھے۔ چنانچہ جب سال 1828 ء میں بطور دوست مہاراجہ نے شاہ برطانیہ کو لارڈ ایمرسیٹ کی وساطت سے پیش قیمت شال کا خیمہ تحفہ کے طور پر ارسال کیا تو جواباً شاہ برطانیہ نے اپنے فریستادہ لیفٹیننٹ برنر کے ہاتھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ایک درجن گاڑی میں جوتے جانے والے گھوڑے، چار اعلی نسل کی گھوڑیاں اور نسل کشی کے لیے ایک عمدہ گھوڑا [سٹالن] 1830ء میں کشتیوں کے ذریعے دریائی راستوں سے دریائے راوی میں بھیج کر لاھور بھجوایا۔ تحائف کے اس تبادلہ کے بعد تعلقات کی تجدید کے خاطر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گورنر جنرل برطانوی ہند سر جان میلکم سے بمقام روپڑ 26 اکتوبر 1831 ء کو ملاقات کی۔ جس کے نتیجہ میں گورنر جنرل مذکورہ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو نو پونڈ کی توپ جو گھوڑوں سے کھینچی جاتی تھی معہ اُس کےگھوڑوں کے پیش کی جو مہاراجہ نے انتہائی خوشی سے قبول کی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اشتیاق اسپ بانی اور اچھے جانور اگھٹا کرنے کا جنون دوسرے مذاہب کے جذبات کی اورشعار کی بے حرمتی سےبھی بے نیاز تھا۔ چنانچہ اس نے اسلامی شعار سے قطعی لاپرواہی برتتے ھوئے لاھور کی مشہور عالم شاھی مسجد کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنا لیا۔ اور یوں خانہ خدا کی بے حرمتی کے کےمسلمان رعایا کے قلوب کو مجروح کرتا رہا۔ وہ اپنے سواری کے مخصوص گھوڑوں پر سونے کی کاٹھی اور مرصع جھول ڈلوایا کرتا۔ وہ خود ایک اعلی درجہ کا سوار تھا اور اپنے سواروں کی قدر کرتا تھا۔ تنومند اور خوبصورت جوان خواہ وہ کسی بھِی مذہب و ملت سے متعلق ھوں اپنے حضور ملازم رکھ لیا کرتا تھا۔
یہی وہ شواھد و محرکات تھے جنہوں نے میاں نورو خان کو شاہسواری میں نام پیدا کرنے پر اکسایا۔ چنانچہ وہ اپنے زمانہ کے تمام درباری شاہسواروں پر گوئے سبقت لے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اُن کے کمال فن کے عوض انہیں شاھی چابکسوار مقرر کیا۔ اور مبلغ پچاس [2] روپے گزرانِ ماہوار مقرر فرمائی۔ بعد سال 1830 میں بذریعہ فرمانِ شاہی اُن کو اپنی خدمات جلیلہ کے عوض موضع بانٹھ تحصیل و ضلع گجرات میں شہر سے قریباً پون میل کے فاصلہ پر 47 ایکٹر دو روڈ 11 پول اراضی بہ معانی مالیہ مبلغ 86 روپے سال تمام مرحمت فرمائی گئی۔
سال 1839 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد اُن کا ولی عہد کنور کھڑک سنگھ سریر آرائے سلطنت ھوا لیکن گجرات پر سے انگریزوں کی لڑائی سال 1846ء کے لگ بھگ سکھوں کا غیر موثر سا کنٹرول بھِی جاتا رہا۔ کیونکہ اُن ایام میں سکھ مرکزیت روبہ انحطاط تھی۔ اُن کے دور حکومت میں بھِی دونوں بھائیوں میاں رسول بخش کاردار بارود خانہ اور میاں نوروخان شاہی چابکسوار کی توقیر بدستور سابق کی جاتی رہی۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ نے بروئے فرمان چہارم ماہ کتک 1888 بکرمی [سال 1843ء] سابقہ مرحمت شدہ اراضی بنام میاں نورو خان بحال رکھی۔
[1] ۔۔۔ پنجاب سیریز جلد دوئم سکھوں کا پنجاب میں عروج از مسٹر ہنری ٹی۔ پرنس
[2] ۔۔۔۔ اندراج مثل نمبر 61 زیر مد 5 تحتی مد دوم معانی مالیہ اراضی دفتر مال ضلع گجرات
نوٹ: بلاگز کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے
Comments
Post a Comment