Hast-o-Bood Part-43


باب ہفتم

گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت



Add caption


 اِس فرمان کو مہر سپہ سالار گلاب سنگھ اور مُہر ہارنسی نصاری اور مہاراجہ کی گورکھ مکھی مُہر کے ساتھ جاری کیا گیا۔ اِس حکمنامہ کے ایک سال بعد ایک فرمان 22 بھادوں 1889 بکرمی سال 1843ء میں جاری کیا گیا جس میں صراحت کی گئِی کہ شاہزادہِ عالمیں کی طرف سے موضع بانٹھ میں جو چار معہ اراضی 80 بیگھہ بطور بخشیش اور 20 بیگھہ اراضِی بطریق انعام عطا کی گئی ہے اُس میں سے فصل ربیع 1889بکرمی سے جو آمدنی ھو اُسے فصل بہ فصل اور سال با سال میاں صاحب مذکورہ اپنے تصرف اور احتیاج میں لا سکیں گے۔ اِس فرمان شاہی کا اجراء بھِی مُہر سپہ سالار گلاب سنگھ ڈوگرہ مُہر کنہیا لعل تعلقہ دار، مُہر ہارلن نصاری اور مُہر بحروف ہندی سے کیا گیا۔ 


بعد 13 مگھر 1890 بکرمی سال 1844ء کو ایک حکمنامہ کی رو سے، جو کارپروازانِ لالہ کنہیا لال، مصر رام کشن، دیوی سہائے، رام سنگھ و محکہ سورا سنگھ کے نام جاری کیا گیا، تحریر ھوا جو کہ ایک کنواں واقع موضع سانٹھ تعلقہ گجرات قدیم ایام سے بوجہ مصاحبت نور محمد چابک سوار کو ملا اور شہزادہ بلند اقبال کنور کھڑک سنگھ جی نے اُسے واگذار رکھا اور مالیہ مبلغ 600 سے خارج رکھا گیا تھا جملہ حبوب سرکار معاف کر دیئے گئے۔ یہ فرمان بدستخطی سری امر سنگھ جی جو کہ پروانگی حضور تھے، مہر بحروف گورمکھی اور مُہر گلاب سنگھ سپہ سالار کے ساتھ جاری ھوا۔


ایسا معلوم ھوتا ہے کہ کسِی غلط فہمی یا کسی دوسری بنا پر 18 اسوج 1891 بکرمی سال 1845ء کو ایک جدید فرمان بدیں مضمون اجراء کیا گیا کہ جو رقبہ شہزادہ کنور کھڑک سنگھ جی نے اپنے سابقہ نگارش کے تحت میاں نور خاں کو واگزار کیا تھا اب اُسے ہر دو برادران میاں رسول بخش اور میاں نوروخاں کے مابین بحصہ برابر تقسیم کر دیا جاوے۔ اور یہ کہ میاں رسول بخش کو یہ نصف حصہ اراضی بطور خدمات بارود خانہ مرحمت کیا جاتا ہے۔ چونکہ اراضِی ابتداً مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے صرف میاں نوروخاں ہی کو مِلی تھی اور کنور کھڑک سنگھ نے بھی وقتاً فوقتاً اپنے عہد میں صرف اُس کی واگزاری اور تجدید کے احکام دیئے تھے اس لیے میاں نوروخاں نے اِس بارہ میں دعوی دیوانی برخلاف اجراء حکمنامہ منجانب کنور کھڑک سنگھ جی مورخہ 18 اسوج 1891 بکرمی سال 1845ء دائر کیا۔ اور اس میں یہ موقف اختیار کیا کہ اراضی متدعویہ ابتداً مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بعوض خدمت سرف انہیں ہی مرحمت کی تھی اور جس صورت میں کنور کھڑک سنگھ خود بھِی 1888 بکرمی سال 1843ء میں اُسی سابقہ جاگیر کی بحالی کا حکم اُن کے حق میں صادر کر چکے تھے بعد وہ اصل حکم میں تصرف نہیں کر سکتے تھے ہاں اگر وہ اپنے باپ کے حکمنامہ کو بطور جدید حکمران منسوخ کر دیتے اور پھر کسی دوسرے کے اشتراک سے از سرنو اپنی طرف سے یہ جاگیر انعام میں بعوض خدمت کسی کو منفرداً یا مشترکہ عطا فرماتے تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ھوتے۔ چنانچہ یہ دعوی مقدمہ نمبر 33 کی صورت میں انگریزی عملداری کے دوران سید ھادی حسین ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گجرات کی عدالت میں 23 جولائی 1850ء کو دائر کیا گیا۔ جنہوں نے فریقین کی سماعت اور سابقہ شاھی ریکارڈ کے ملاحظہ کے بعد اپنے فیصلہ مورخہ 5 دسمبر 1850ء کی رُو سے اراضی متدعویہ بدستور سابق میاں نور خاں ہی کے نام بحال رکھنے کی ھدایت فرمائی۔ اور یوں یہ وجہ نزاع درمیان ہر دو برادران بطریق احسن اختتام پذیر ھوئی۔ اِس معمولی سی تلخی کے باوجود دونوں بھائیوں میاں رسول بخش اور میاں نوروخان کے روابط باہمی مراسم نہایت متعدل اور خوشگوار رہے۔ جس کی مثال میاں رسول بخش کی اکلوتی دختر کی میاں نبی بخش پسر میاں نوروخاں سے شادی سے دی جا سکتی ہے جو اس مقدمہ کے بعد عمل میں آئی اور جو خاندان منگرال راجپوت گجرات کی ایک نہایت ہی کامیاب اور مثالی شادی مانی جاتی ہے۔  


جاری ہے ۔۔۔۔


نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے کسی طرح بھی متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں