Hast-o-Bood Part-45

  باب ہفتم

گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت


میاں نوروں خان نہایت وجیہہ، تنومند، بارعب، صاحب کردار اور انتظامی امور میں ماہر ھونے کے علاوہ مانے ھوئے شہسوار بھی تھے۔ انہوں نے کمال خود داری اور وقار سے ملامت سرکار سرانجاب دی اور اپنے کنبہ کی احسن طریقہ سے پرورش اور کفالت کے بعد راہی ملک عدم ھوئے۔ وہ دین دار بزرگ تھے اور اُن کی اولاد میں سے اُن کے پسر اکبر میاں الہی بخش ملازمتِ سرکار کے ساتھ ساتھ دینی مشاغل میں انتہائی تندہی سے مصروف رہے جن کا مفصل احوال اپنی جگہ پر آئے گا۔ میاں رسول بخش بھِی حُسنِ سیرت، مروت، رواداری، شجاعت اور انتظامی استعداد میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ہر دو برادران نے اپنے نامور والد میاں محمد اعظم کی اعلی اقدار کو قائم رکھا اور اپنے فرزندان اور ورثاء کے لیے وہ اعلیٰ نقوش چھوڑے جو واضع لائحہ عمل کے تعین میں کسی دور میں بھِی راہنما اصولوں کے طور پر اختیار کرنے سے کامیاب زندگی کے امین ثابت ھو سکتے تھے۔


خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را

ایک انگریز مفکر نے اس سلسلہ میں کیا ہی خوب کہا ہے 

ترجمعہ : ہمیں اپنے عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔



باب ہشتم

میاں کمال دین کے فرزند میاں عبدالوہاب اور اُن کے ورثاء


رائے عبدالحکیم کے سب سے بڑے صاحب زادے میاں کمال الدین تھے۔ وہ ہجرت کے وقت نوجوان، تنو مند، خوش وضع اور عفوانِ شباب کے رعنائیوں کے حامل تھے۔ سِکھ عملداری میں  نئی جائے سکونت پر روزی کمانے کا مسئلہ سب سے اہم تھا۔ ضعیف والد اور اہل کنبہ کی گزر اوقات کے لیے انہوں نے ہوش سنبھالتے ہیں ہاتھ پیر مارنے شروع کیئے اور جلد ہی وہ بطور سپاہی سِکھ فوج میں لے لیے گئے۔ اُسی دوران اُن کی شادی ھو گئی اور اُن کے ہاں واحد پسر میاں عبدالوہاب تولّد ھوئے۔ اُس زمانہ میں گجرات میں حصول تعلیم کی جدوجہد مسجدوں اور خانگاھوں میں صرف مذہبی علوم تک محدود تھی۔ یا نسبتاً زیادہ علم دوست خانوادوں میں گلستان و بوستان، تصانیف سعدی شیرازی کی تدریس کا دور دورہ تھا جو پرائیویٹ طور پر بچوں کو پڑھائی جاتی تھیں۔ سرکاری زبان فارسی تھی۔ میاں عبدالوہاب نے معمولی مذہبی تعلیم کے بعد بطور گماشتہ سرکار ملازمت اختیار کر لی اور اپنی زندگی میں باعزت گزران کی راہ نکالی۔ وہ طبعاً کم گو، محنتی اور سادہ طبع آدمی تھے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے خوش وضع اور مرنجان مرنج انسان تھے۔ 


میاں عبدالوہاب کی شادی اپنے والد میاں کمال الدین کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ اُن کے ہاں واحد پسر میاں نظام الدین پیدا ہوئے۔ میاں کمال الدین اور میاں عبدالوہاب کی تاریخ وفات کے بارہ میں معلومات مفقود ہیں۔ میاں نظام الدین نے ابتدائی دینی تعلیم اور محدود فارسی تدریس کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور سپاہی محکمہ پولیس کیا۔ اور اپنی محنت اور حسنِ کارکردگی، شجاعت، فرائض منصبی کی بطریق احسن سرانجام دہی سے وہ بطور حوالدار ترقی یاب ھوئے۔ اُس زمانہ میں ایسے عہدہ ہائے پر تعیناتی خاندان نجابت کی پرکھ پر کی جاتی تھی۔ میاں نظام الدین صلح جو، دیندار اور صاحب فراست بزرگ تھے۔ روایت ہے کہ وہ اپنا اکثر و بیش تر وقت یاد الہی میں مساجد میں گزارتے۔ حتیٰ کہ اکثر اوقات اُن کو سپاہی لوگ مساجد سے تلاش کر کے تحقیقات جرائم کے لیے ہمراہ لے جاتے۔ اُن کی وفات انگریزی عملداری میں 18نومبر 1897ء کو ھوئی۔ اُن کے ہاں تین فرزند میاں محمد الدین، میاں قمر الدین اور میاں فضل الدین تولّد ھوئے۔ اُن کی واحد صاحبزادی میاں فیروزالدین پٹواری سے شادی شدہ تھیں جن سے میاں ظہورالدین تولّد ھوئے۔ میاں قمرالدین قوی الجثہ نوجوان تھے۔ وہ عالمِ شباب میں 12 مارچ 1919ء کو ہی اللہ کو پیارے ھو گئے جبکہ اُن کے چھوٹے بھائی میاں فضل الدین بچپنے میں ہی فوت ھوگئے تھے۔ میاں نظام الدین کا سلسلہ ذکور و انات اُن کے پسر بزرگ میاں محمد الدین ہی سے چلا۔


میاں محمدالدین نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز دفتر ڈپٹی کمیشنر گجرات میں بطور کلرک کے کیا۔ بعدہ وہ تحصیلدار گجرات کے محرر جوڈیشیل تعینات ھوئے۔ اپنی ملازمت کے آخری چند سال بطور پیشی محرر ڈپٹی کمیشنر متعین رہے۔ وہ اپنے وقت کے انتہائی ذہین، محنتی، قانون دان، منتظم اور فرض شناس اہلکار شمار ہوتے تھے۔ وہ دراز قد، بے باک، اور جابر قسم کے سپوت قوم تھے۔ شہر میں انہیں ذاتی اثرو رسوخ کے علاوہ مہم جوئی کی وجہ سے ایک ممتاز شہری مانا جاتا تھا۔ وہ خوش پوش، خوش وضع اور بڑے رکھ رکھائو کے انسان تھے۔ حُسنِ کارکردگی اور خدمت سرکار کی اعلی استعداد کی بنا پر انہیں ایک میڈل اور ایک دوسرے موقعہ پر ایک نقرئی جیبی گھڑی ڈپٹی کمیشنر گجرات کی طرف سے بطور انعام مرحمت ھوئی۔ وہ سماجی امور میں بھی پورے انہماک سے حصہ لیتے تھے اور انجمن خدام الاسلام گجرات کے جنرل سکریٹری تھے جس کے زیر انتظام اسلامیہ مڈل سکول برائے طلبہ چلایا جا رہا تھا۔ وہ اس سکول کے مجلس منتظمہ کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ اپنی مجاہدانہ کشمکش حیات سے پُر زندگی گزارنے کے بعد وہ 8 اگست 1925ء کو اس دارِ فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ:    بلاگر کا کتاب کے کسی بھِی متن سے کسی طور متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15