Hast-o-Bood Part-46

 باب ہشتم

میاں کمال دین کے فرزند میاں عبدالوہاب اور اُن کے ورثاء



میاں محمدالدین کے سب سے بڑے صاحبزادے میاں محمد نواز مورخہ 7 دسمبر 1899ء کو گجرات میں پیدا ھوئے۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز دفتر ڈپٹی کمیشنر گجرات میں بطور محرر جوڈیشیل کیا۔ اپنی گرم مزاجی اور اُفتاد طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ملازمتِ سرکار سے استعفی دے دیا اور جوان سال میں ہی وکلاء کی منشی گیری اختیار کر لی۔ اِس میں وہ غایت درجہ کامیاب رہے، یہ کام انہوں نے کم و بیش 50 سال تک کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ انجمن منشیان وکلاء گجرات کے صدر منتخب ھوگئے اور اسی حیثیت میں سال 1947 تک رہے۔ تاآنکہ بوجہ کبیر سنی منشی گیری کو خیرآباد کہا۔ باوجود پیرانہ سالی میاں محمد نواز اہل خانہ کے دکھ سُکھ میں رضاکارانہ شامل ھوتے رہے۔ وہ صآف گوہ اور بیباتک قسم کے فرد تھے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں لیکن تاحال کسی زوجہ سے انکی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ آج کل وہ انجمن امامیہ گجرات کے مشیر اعلیٰ ہیں۔ 


میاں محمدالدین کے فرزند ثانی میاں محمد ریاض تھے۔ جو 28 ستمبر 1904ء کو پیدا ھوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ فوج میں بطور سپاہی بھرتی ھوگئے۔ اپنی محنت اور لگن سے ترقی یاب ھو کر صوبیدار کے عہدہ تک پہنچ گئے لیکن طبیعت میں سرکشی اور تیزی کی وجہ سے اُس میدان میں موزوں نہ پائے گئے اور مجوراً ملازمت چھوڑ کر آزاد زندگی گزارنے گھر چلے آئے۔ کچھ عرصہ بعد گجرات پنجاب بس سروس کے اڈہ کراچی میں منیجر لگائے گئے۔ وہاں بھی اوائل سال 1972ء تک کام کرتے رہے۔ ماہِ محرم میں رخصت پر گجرات آئے پر مرض الموت میں مبتلا ھو کر 10 مارچ 1972ء کو بعمر ساڑھے 68 سال داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ ذوقِ لطیف کے حامل، سیمابی اوصآف سے متصف متواضع اور نڈر فرد قوم تھے۔ جلال و جمال کے پیکر تھے۔ شیعہ مجالس میں بطور ذاکر شمولیت کرتے، خود بھی شعر کہتے تھے۔ گھر اور باہر ہر دو 2 جگہ رعب داب میں رہتے تھے۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے دو 2 شادیاں کیں۔ پہلی زوجہ سے کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ جبکہ انکی دوسری بیوی سے دو پسران میاں عابد ریاض اور میاں ساجد ریاض کے علاوہ 5 دختران بھی تولد ھوئیں۔ میاں محمدالدین کا سلسلہ ذکور انہی سے آگے چلا ہے۔


میان محمد الدین کے اس فرزند کے بڑے صاحبزادے میاں عابد ریاض نے جو 13 اکتوبر 1956ء کو تولد ھوئے تھے سال 1972ء میں میٹرک پاس کیا اور اسی سال اپنے صاحب فروش والد کی فوتگی کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے۔ چونکہ اس بڑے کنبہ کی دستگیری کرنے والا اور کوئی نہ تھا اس لیے وہ قسمت آزمائی کے لیے ملک سے باہر کویت چلے گئے۔ وہ آجکل وہاں کسی بیرونی فرم میں بطور سپروائیزر کام کر رہے ہیں اور بجا طور پر اپنی بیوہ ماں اور دیگر افراد کنبہ کا عزیز ترین سرمایہ اور سہارا ہیں۔ وہ خوش شکل، خوش اطوار، اور محنتی نوجوان ہیں اور اپنی ذمہ داری کو پوری طرح سمجھنے والے فرد قوم ہیں۔ ابھی تک انکی شادی نہیں ھوئی ہے۔


میاں محمد ریاض کے چھوٹے فرزند میاں ساجد ریاض 17 جنوری 1962ء کو پیدا ھوئے اور 29 نومبر 1962ء کو ماں کی گود خالی کر گئے۔ 


حسرت تو ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے


میاں محمد الدین کے تیسرے لڑکے میاں محمد نشاط 17 جولائی 1912ء کو پیدا ھوئے۔ تعلیم کی طرف شروع ہی سے رجحان نہ ھونے کی وجہ سے والد کے اصرار کے باوجود مڈل سے زیادہ نہ پڑھ سکے۔ کھیل کود، مارکٹائی، پنجہ آزمائی اور اپنی برتری منوانے کی لگن بچپن سے جوانی تک اُن کا طرہ امتیاز رہی۔ اُنکی افتادِ طبیعت اور سرکشی کی وجہ سے اکثر اوقات میاں محمدالدین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا لیکن وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنے اس لاڈلے بیٹے کی مضبوط ڈھال ثابت ھوتے۔ اپنی گرامی قدر اور اور بارسوخ باپ کی وفات کے بعد کچھ سال میں محمد نشاط نے اپنی دیرینہ سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ھوئے برف کی ایجنسی اور خریدوفرخت کا مرکز قائم کیا اور اس طرح باعزت زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں میسرز شاہ اینڈ کمپنی گجرات کی جائیداد کے مختار ھوگئے اور تا دمِ مرگ یہی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ جواں سالی ہی میں انہوں نے اپنی پسند کی شادی کی۔ لیکن ان کی اولاد نرینہ نہ ھوئی۔ انہوں نے بھرپور اور تگ و دو میں گم زندگی گزار کر 26 اکتوبر 1975ء کو رحلت فرمائی۔ 


میاں محمد الدین کے خوردترین فرزند میاں محمد جواد 12 دسمبر 1919ء کو پیدا ھوئے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ملازمت کا آغاز فوج میں بطور مکینک کیا۔ اپنی بے پرواہ اور سہل انگار طبیعت کی وجہ سے زیادہ عرصہ فوجی زندگی کی تلخیوں سے عہدہ براہ نہ ھو سکے گھر چلے آئے۔ سب سے پہلے ٹرک سروس میں بطور موٹر ڈرائیور کام کرنے لگے۔ لیکن پھر گجرات میں قیوم گڈز ایجنسی سے منسلک ھو گئے۔ کچھ سال گجرات میں کام کرنے کے بعد لاھور میں متعدد گڈز ایجنسیوں میں بطور پارٹنر کام کرتے رہے۔ آخر گجرات لوٹ آئے اور یہیں آجکل قویم گڈز ایجنسی میں علاوہ یونیہ کمیشن ماہوار مشاہرہ پر بھِی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ طبیعت کی افتاد انہوں نے بھِی ورثہ میں پائی ہے تاہم وہ سادہ شعار، سادہ لوح اور مرنجاں مرنج انسان ہیں۔ غایت درجہ پرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔ انہوں نے دو شادیاں یکے بعد دیگرے کیں تھیں۔ پہلی زوجہ سے ایک بیٹی تولد ھوئی لیکن باہمی ناچاقی کی وجہ سے یہ شادی طلاق پر منتج ھوئی۔ چنانچہ وہ بچی بھِی ماں کے ساتھ ہی ننھیال چلی گئی۔ اُن کی زوجہ ثانی سے تاحال کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ 


جاری ہے ۔۔۔۔۔


نوٹ:  بلاگر کا کتاب کے کسی متن سے کسی طور متفق ھونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔


Comments

  1. I appreciate you work. This history is really an esset for Mangral tribe.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-39

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-15