Posts

Hast-o-Bood Part-40

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان یہ سرزمین ایک طرف تو زندہ دلانِ پنجاب کا مسکن تھِی دوسری طرف اس کی مٹی حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کی حامل شخصیتوں کا رنگین امتزاج لیے ھوئے تھی جس میں وفا کا رنگ رچا بسا ھوا تھا۔ دارفتگی اور ایفائے عہد کی صفات نے مشہور دہرعشق و محبت کی داستانوں میں سوہنی مہیوال کی داستان کا اضافہ کیا جس سے سرزمینِ گجرات کو شہرت دوام حاصل ھوئی۔ اُس زمانہ میں صنعت ظروف سازی، چرم سازی، حُقہ سازی، لکڑی کا کام اپنے عروج پر تھا۔ غرض یہ گجرات اپنی گوں نا گوں رنگینیوں اور گندم کی پیداوار کی فراوانی کے سبب مشہور تھا۔ اِس لیے جہاں اطرافِ ضلع سے حاجت مند اصحاب یہاں کچھے چلے آئے اور وہاں حلحقہ علاقہ ریاست جموں کشمیر کوٹلی منگرالاں سے راجپوت منگرال خاندان کے چشم وچراغ رائے عبدالحکیم بھی ریاست میں آئے کی طوائف الملکوکی سے پریشان خاطر ھو کر معہ افراد کنبہ نقل مکانی پر مجبور ھو کر بے سروسامانی کے عالم میں گجرات چلے آئے اور ایسے آئے کہ وہ اور اُن کی آئندہ نسلیں مستقلاً یہیں کے ھو کر رہ گئے۔ یاد رہے کہ اُس زمانہ میں گجرات کا ضلع سکھوں کی حکومت کا ایک حصہ تھا اور سِکھ سردارو

Hast-o-Bood Part-39

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان Dargah Shah dola Gujrat ضلع گجرات کے موضع بوٹا متصل موضع ٹانڈا میں [1] نقیب طوس اولاد بنی اسرائیل کا مدفن بیان کیا جاتا ہے۔ موضع نجان متصل موضع مناورہ میں [2] فعینوش نامی اولاد سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام آسودہ خاک ہیں۔ جبکہ چھمب میں سیدا داود علیہ السلام کی اولاد میں سے فلسانوس کی قبر بتائی جاتی ہے۔  اِن کے علاوہ موضع دٹالہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں ہرشیا نامی کا مدفن ہے۔ شہر گجرات سے 5 میل جانب جنوب قصبہ کنجا میں قدیم صاحب دیوان و مثنوی نیرنگ عشق صوفی شاعر حضرت غنیمت کنجاہی آسودہ خاک ہیں۔ ان کی شہرت اُس دور میں جبکہ وسائل مواصلات آج کے ترقی یافتہ دَور کے مقابلہ میں نہ ھونے کے برابر تھے۔ ملک سے باہر مملکتِ ایران میں بھی بام عروج پر تھی۔ وہ اپنی گراں قدر مثنوی کو شاہِ فارس سے منسوب کرتے ھوئے یوں گویا ھوئے ہیں؛ بنامِ شاھد نازک خیالاں عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں اُس دور میں جبکہ اطراف و جانب میں خود شناسی، فقر و معرفت اور روحانیت کے سرچشمے گمراہ انسانیت کی اصلاح کے لیے مختلف مراکزِ فکرو نظر کا احاطہ کیے ھوئے تھے اور ملک کے

Hast-o-Bood Part-38

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان ضلع گجرات صوبہ پنجاب کے دو دریائوں چناب اور جہلم کے دوآبہ میں واقع ہے اور اپنی منفرد تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ سکندراعظم کے حملہ ہند کے دوران اِس علاقہ کا حکمران راجہ پورس تھا۔ اِس ضلع کی تحصیل کھاریاں کے پہاڑی سلسلہ پبی کا موجودہ بلاپمیوو علاقہ جو اُس زمانہ میں "پاٹہ کوئی" کہلاتا تھا راجہ پورس کا پایہِ تخت تھا۔ عہد مغلیہ میں شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر اعظم کے زیر فرمان ایک سربرآوردہ فرد [1] وڈھیرا مہتہ کا کائل نے گجرات کی بستی کو جو ایک بڑے سے مٹی کے ٹیلے کی صورت میں تھی ایک پررونق شہر کی حیثیت دینے اور بادشاہ یا شہزادگان کے سفرِ کشمیر جنت نظیر کے دوران شاہی قیام گاہ یا درمیانی منزل کا شرف بخشنے کی خاطر اِس ٹیلے پر ایک پختہ حصار کی تعمیر کروائی۔ جس میں علاوہ رہائشی عمارات، مسجد، حمام، ڈھکی اور باولی برائے بہم رسائی آپ بھی بنوائے گئے۔ اِس قلعہ کی فصیل معہ متعدد بروج تعمیر ھوئی۔ قلعہ کے جنوب مشرق کی جانب اِس سے ملحق شاہی بارود خانہ کی تعمیر کی گئِی اور ایک محلہ کی صورت میں چند مکانات کی تعمیر برائے رہائش حکام و ملازمین سرکار عمل

Hast-o-Bood Part-37

Image
باب پنجم راجہ سہنسپال خان اور اُن کے ورثاء Mian Muhammad Asghar, Gujrat Book Dept. راجہ سہنسپال کے دور سلطنت میں قوم منگرال راجپوت کی غالب اکثریت ضلع میر پور کی تحصیل کوٹلی کے موضعات کوٹلی، تھروچی، بھیڑیاں اور براٹلہ کے علاوہ تحصیل سہنسہ اور گرد ونواح کے علاقہ میں قیام پزیر تھی۔ کوٹلی پہلے تحصیل کا صدر مقام تھا۔ راجہ سہنسپال کے چاروں پسران [1] رائے دان خان، رائے تاتار خان، رائے قندھار خان اور رائے جانب خان اپنی اولاد کے ہمراہ انہی موضعات میں مقیم رہے۔ اِن میں سے رائے قندھار خان  لاولد فوت ھوگئے اور بقیہ برادران صاحب اولاد ھوئے۔ ہمیں چونکہ منگرال راجپوت خاندان مقیم گجرات کا ہی تذکرہ اِس تالیف میں مقصود ہے صرف انہی ناموں کا اعادہ خصوصیت سے کیا جائے گا جن کی کڑیاں رائے عبدالحکیم سے مِلتی ہیں۔ رائے تاتار خان کے چار پسران میں سے رائے سرفراز خان اور اُن کے تین صاحبزادوں میں سے رائے ذاھد خان اور اُن کے دو لڑکوں میں سے پسرِ بزرگ رائے سداد خان اور اُن کے تین پسران خوردین پسر رائے بخش خان اور اُن کے واحد فرزند رائے مکو خان اور اُن کے اکلوتے لڑکے رائے محبت خان سے نسل منگرال بڑھتی چلی گئی۔ رائے مح

Hast-o-Bood Part-36

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ منگرال نوابی اپنے معزز و محترم بزرگوں کے بلند کردار کو اُجاگر کرنے اور کِسی منفرد مقام کے حصول کی لگن نے افراد اور اقوام کو ہر زمانہ میں نئِی نہج بخشی ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے متمیز کرنے اور بقائے دوام کی آرزو نے ہی افراد اور قوموں کے جداگانہ تاریخ کا احیاء کیا ہے۔ غالبًا یہی وہ جذبہ ہے جو منگرال راجپوت قوم کی ایک شاخ کے نوابی منگرال کہلانے کا محرک بنا۔ منگرال قوم کی یہ نودمیدہ شاخ راجہ جنگ خان منگرال کے ذی اقتدار پسر راجہ نواب خان کے نام سے اب اندرون کنبہ موسوم کی جا رہی ہے۔ جو موضع سرہوٹہ تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی میں ایک معزز و محترم شخصیت تھے۔ تمام گاوں کی اراضِی کی ملکیتی حقوق کے حامل باوقار، صحب الرائے اور سرکاری درباری اثرورسوخ کے مالک بزرگ ھونے کے ناطے سے اُن کے ورثاء نے اُن کو اُن کے نام پر نوابی منگرال کہلانا پسند کیا۔ راجہ نواب خان منگرال کے واحد پسر راجہ روڈا خان بھی علاقہ کے زمیندار ھونے کے علاوہ ایک منجھے ھوئے شکاری تھے۔ ڈوگرہ حکومت میں وہ سرکاری افسران میں جنگلی شکار کے ماہر ھونے کی بناء پر بہت مقبول تھے۔ ڈوگرہ مہا

Hast-o-Bood Part-35

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ صوبیدار پینشنر راجہ الف خان منگرال صوبیدار پینشنر راجہ الف خان منگرال خانوادہ کے راجہ نورداد خان ولد راجہ حیدر خان کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1940ء میں بطور سپاہی کیا۔ شِروع ہی سے اپنی کار منصبی کو زندہ و قائم رکھتے ھوئے اپنے لیے ملکی دفاع کے زمرہ میں نام پیدا کرنے کی امنگ اُن کو ہر معرکہ حیات میں پیش پیش رکھنے میں ممد ثابت ھوئی۔ اپنی محنت، شرافت اور سچی لگن وہ شُدہ شُدہ ترقی یاب ھو کر 1969ء میں بطور صوبیدار فوج سے ریٹائر ھوئے۔ فوج سے سبکدوشی کے بعد بھِی اُن کا جذبہ خدمت جوان رہا اور منگلا ڈیم پراجیکٹ کے سلسلہ میں سابقہ میر پور کی آبادی جھیل میں مدغم ھو جانے کے بعد جدید میر پور شہر میں انہوں نے صنعتی ایریا میں ریاستِ آزادکشمیر کا اپنی نوعیت کا پہلا پرائیویٹ ادارہ "کشمیر آئل ملزمیرپور" قائم کیا۔ اور یوں اپنے پیارے وطن کی صنعتی ترقی میں سرگرمِ کار رہے۔ اُن کے تین پسران راجہ خالد جاوید، راجہ ساجد جاوید اور راجہ ماجد جاوید ہیں۔ راجہ محمد غضنفر منگرال آپ راجہ نورداد خان منگرال کے تیسرے فر

Hast-o-Bood Part-34

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ میجر راجہ الف خان منگرال آپ 1895ء میں راجہ طالع مہندی منگرال کے ہاں موضع فتح پور تحصیل و ضلع میر پور میں تولّد ھوئے۔ خاندان میں باوجود ریاستی وسائل تعلیم کی کمی اور ڈوگرہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے محدود سہولتوں کے مہیا کیے جانے تعلیمی رجحان موجود تھا۔ ابتدائی تعلیمک کے بعد سال 1914ء میں میٹرک پاس کیا اور عملی زندگی میں افواج ہند میں بطور سپاہی کلرک سال 1915ء میں شامِل ھوئے۔ پڑھے لکھے تو تھے ہی اپنی محنت، دیانت اور اطاعت شعاری سے یکم اپریل 1921ء کو فرسٹ پنجاب رجمنٹ میں حوالدار نائک بنائے گئے۔ اپنی اعلی فوجی استعداد اور فنی مہارت کی بنا پر حکومت برطانیہ کی طرف سے دو پشت تک کے لیے مبلغ 5 روپے مہوار جنگی انعام حاصل کیا اور یکم اکتوبر 1931ء میں بطور جمعدار ترقیی یاب ھوئے۔ اسی عہدہ سے 24 فروری 1940ء میں ریٹآئر ھوئے۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے دوران 30 ستمبر 1941ء کو پھر فوج سے طلبی ھوئی اور انہیں فرسٹ پنجاب ریجمنٹ میں 10 جنوری 1942ء کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ ترقی دے دی گئِی۔ بعد میں 25 نومبر 1947ء کو انہیں عارضِی میجر بنایا گیا او