Posts

Hast-o-Bood Part-44

Image
 باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت انگریزوں کی آئے دن کی ریشہ دانیوں اور سکھ دربار میں غیر یقینی حالات کے پیش نظر میاں نور خان سال 1845 کے دوران ہی گجرات چلے آئے تھے۔ علاوہ آمدنی اراضِی جاگیر، سکھ دربار سے مبلغ 50 روپے ماہانہ پنشن سے وہ اپنی اور اہل خاندان کی پرورش کرتے رہے اور دن گزارتے رہے۔  میاں رسول بخش بھِی اپنے لڑکوں اور اہل خاندان کے ہمراہ گزربسر کرتے رہے اور اسی طرح کنبہ کے سب افراد محلہ چابکسواراں میں مقیم ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساجھی بن کر وقت گزارتے رہے تاآنکہ میاں رسول بخش کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے پیچھے دو ازدواج سے ذکور میں سے چار فرزند میاں امیر بخش، میاں وزیر بخش، میاں مراد علی اور میاں حسین بخش اور اناث سے واحد دختر جس کی شادی میاں نبی بخش سے ھو چکی تھی چھوڑے۔ میاں نورو خان بھی اپنے بھائی کے کچھ عرصہ بعد 29 اکتوبر 1877 کو راہی ملک عدم ہوئے۔ اُن کی جاگیر واقع موضع بانٹھ سِکھ عملداری کے بعد سرکارِ انگشیہ کی طرف سے بھِی بروئے فرمان چیف کمیشنر پنجاب مجریہ مورخہ 15 اگست 1855 اُن کی زندگی میں ہی واگزار رکھِی گئی تھی۔ اب اُن کی وفات پر ڈپٹی کمیشنر گجرات

Hast-o-Bood Part-43

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت Add caption  اِس فرمان کو مہر سپہ سالار گلاب سنگھ اور مُہر ہارنسی نصاری اور مہاراجہ کی گورکھ مکھی مُہر کے ساتھ جاری کیا گیا۔ اِس حکمنامہ کے ایک سال بعد ایک فرمان 22 بھادوں 1889 بکرمی سال 1843ء میں جاری کیا گیا جس میں صراحت کی گئِی کہ شاہزادہِ عالمیں کی طرف سے موضع بانٹھ میں جو چار معہ اراضی 80 بیگھہ بطور بخشیش اور 20 بیگھہ اراضِی بطریق انعام عطا کی گئی ہے اُس میں سے فصل ربیع 1889بکرمی سے جو آمدنی ھو اُسے فصل بہ فصل اور سال با سال میاں صاحب مذکورہ اپنے تصرف اور احتیاج میں لا سکیں گے۔ اِس فرمان شاہی کا اجراء بھِی مُہر سپہ سالار گلاب سنگھ ڈوگرہ مُہر کنہیا لعل تعلقہ دار، مُہر ہارلن نصاری اور مُہر بحروف ہندی سے کیا گیا۔  بعد 13 مگھر 1890 بکرمی سال 1844ء کو ایک حکمنامہ کی رو سے، جو کارپروازانِ لالہ کنہیا لال، مصر رام کشن، دیوی سہائے، رام سنگھ و محکہ سورا سنگھ کے نام جاری کیا گیا، تحریر ھوا جو کہ ایک کنواں واقع موضع سانٹھ تعلقہ گجرات قدیم ایام سے بوجہ مصاحبت نور محمد چابک سوار کو ملا اور شہزادہ بلند اقبال کنور کھڑک سنگھ جی نے اُسے واگذار رکھا او

Hast-o-Bood Part-42

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت  اپنے منصب کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے رہتے۔ اُن کے خلوص اور کردار کی بلندی سے حکومت اور عوام یکساں متاثر تھے۔ اُن کی معاملہ فہمی اور حکومت کا اُن پر اعتماد علم اُس حکمنامہ سے بخوبی ھو سکتا ہے جو سردار گلاب سنگھ ڈوگرہ سپہ سالار نے اُن کے نام 13 اسوج 1888 بکرمی کو جاری کیا اور جس میں اُن سے اُن کے زیر قبضہ قلعہ گجرات میں بارود کے وزن اور مقدار کی دریافت کی گئی تھی۔ نیز ان میں سے بے کار اور کار آمد بارود کے بارہ میں تخمینہ اور جس مقدار میں جدید بارود قلعہ میں رکھا جانا ضروری تھا کی نسبت استفسار کیا گیا۔ میاں رسول بخش کو قلعہ گجرات سے ملحق چند مکانات بھِی مہاراجہ کے ایما اور حکم سے دیئے گئے جہاں وہ اور اُن کے دیگر افراد کنبہ مقیم تھے۔ یوں وہ مستقلاً اپنے اصل مقام ہجرت میں واپس پہنچ گئے۔ میاں محمد اعظم کے چھوٹے فرزند میاں نورو خان اسی دوران میں مہاراجہ کی گھوڑ سواری کے شوق کے پیش نظر اپنے لیے ایک مختلف میدانِ کارکردگی انتخاب کر چکے تھے۔ انہوں نے لاھور کے مشہور چابکسوار خاندان کے بزرگوں سے شرفِ تلمذ اختیار کرتے ھوئے

Hast-o-Bood Part-41

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت رائے عبدالحکیم کی گجرات میں آمد کے وقت اُن کے ہر سہ فرزندان میاں کمال دین، میاں محمد اعظم اور میاں محمد مقصود معہ دیگر اہل کنبہ نقل مکانی کرتے ھوئے اُن کے ہمراہ آئے۔ ظاہر ہے اس قدر طویل سفر کِسی معتد بہ رختِ سفر کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ اُس زمانہ میں باربرداری اور بہ سہولت آنے جانے کے ذرائع بھِی مفقود تھے۔ پھر ہر طرف طوائف الملوکی کا دورہ دورہ تھا۔ اس لیَے پہاڑی راستہ کی کلفتیں اور بیگانہ سرزمین میں منزل بہ منزل قیام کی ناخوشگواری ایک حساس دِل رکھنے والے کو اِس مصیبت زدہ مہاجر کنبہ کے احوال کو سمجھنے کے لیے کسی منظر کشی کی طالب نہیں ھو گی۔ ریاست کی حدود سے نکل کر براستہ بھمبھر پیدل سفر سے افتاں و خیزاں یہ مختصر سا قافلہ سرزمین پنجاب کے سرحدی ضلع گجرات کی تحصیل گجرات کے صدر مقام تک پہنچا اور اولاً شہر کے مضافات میں فروش ھوا۔ یہاں نسبتاً سکون تھا کیونکہ سکھوں کے مستقل قبضہ اور عملداری کے باعث یہاں کا انتظام و انصرام ریاست کے ہنگامہ خیز زندگی سے ہزار درجہ بہتر تھا۔ محنت مزدوری اور روز ی کمانے کے بیسیوں زرائع میسر تھے۔ پھر محنت کے خوگر افراد کے

Hast-o-Bood Part-40

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان یہ سرزمین ایک طرف تو زندہ دلانِ پنجاب کا مسکن تھِی دوسری طرف اس کی مٹی حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کی حامل شخصیتوں کا رنگین امتزاج لیے ھوئے تھی جس میں وفا کا رنگ رچا بسا ھوا تھا۔ دارفتگی اور ایفائے عہد کی صفات نے مشہور دہرعشق و محبت کی داستانوں میں سوہنی مہیوال کی داستان کا اضافہ کیا جس سے سرزمینِ گجرات کو شہرت دوام حاصل ھوئی۔ اُس زمانہ میں صنعت ظروف سازی، چرم سازی، حُقہ سازی، لکڑی کا کام اپنے عروج پر تھا۔ غرض یہ گجرات اپنی گوں نا گوں رنگینیوں اور گندم کی پیداوار کی فراوانی کے سبب مشہور تھا۔ اِس لیے جہاں اطرافِ ضلع سے حاجت مند اصحاب یہاں کچھے چلے آئے اور وہاں حلحقہ علاقہ ریاست جموں کشمیر کوٹلی منگرالاں سے راجپوت منگرال خاندان کے چشم وچراغ رائے عبدالحکیم بھی ریاست میں آئے کی طوائف الملکوکی سے پریشان خاطر ھو کر معہ افراد کنبہ نقل مکانی پر مجبور ھو کر بے سروسامانی کے عالم میں گجرات چلے آئے اور ایسے آئے کہ وہ اور اُن کی آئندہ نسلیں مستقلاً یہیں کے ھو کر رہ گئے۔ یاد رہے کہ اُس زمانہ میں گجرات کا ضلع سکھوں کی حکومت کا ایک حصہ تھا اور سِکھ سردارو

Hast-o-Bood Part-39

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان Dargah Shah dola Gujrat ضلع گجرات کے موضع بوٹا متصل موضع ٹانڈا میں [1] نقیب طوس اولاد بنی اسرائیل کا مدفن بیان کیا جاتا ہے۔ موضع نجان متصل موضع مناورہ میں [2] فعینوش نامی اولاد سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام آسودہ خاک ہیں۔ جبکہ چھمب میں سیدا داود علیہ السلام کی اولاد میں سے فلسانوس کی قبر بتائی جاتی ہے۔  اِن کے علاوہ موضع دٹالہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں ہرشیا نامی کا مدفن ہے۔ شہر گجرات سے 5 میل جانب جنوب قصبہ کنجا میں قدیم صاحب دیوان و مثنوی نیرنگ عشق صوفی شاعر حضرت غنیمت کنجاہی آسودہ خاک ہیں۔ ان کی شہرت اُس دور میں جبکہ وسائل مواصلات آج کے ترقی یافتہ دَور کے مقابلہ میں نہ ھونے کے برابر تھے۔ ملک سے باہر مملکتِ ایران میں بھی بام عروج پر تھی۔ وہ اپنی گراں قدر مثنوی کو شاہِ فارس سے منسوب کرتے ھوئے یوں گویا ھوئے ہیں؛ بنامِ شاھد نازک خیالاں عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں اُس دور میں جبکہ اطراف و جانب میں خود شناسی، فقر و معرفت اور روحانیت کے سرچشمے گمراہ انسانیت کی اصلاح کے لیے مختلف مراکزِ فکرو نظر کا احاطہ کیے ھوئے تھے اور ملک کے

Hast-o-Bood Part-38

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان ضلع گجرات صوبہ پنجاب کے دو دریائوں چناب اور جہلم کے دوآبہ میں واقع ہے اور اپنی منفرد تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ سکندراعظم کے حملہ ہند کے دوران اِس علاقہ کا حکمران راجہ پورس تھا۔ اِس ضلع کی تحصیل کھاریاں کے پہاڑی سلسلہ پبی کا موجودہ بلاپمیوو علاقہ جو اُس زمانہ میں "پاٹہ کوئی" کہلاتا تھا راجہ پورس کا پایہِ تخت تھا۔ عہد مغلیہ میں شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر اعظم کے زیر فرمان ایک سربرآوردہ فرد [1] وڈھیرا مہتہ کا کائل نے گجرات کی بستی کو جو ایک بڑے سے مٹی کے ٹیلے کی صورت میں تھی ایک پررونق شہر کی حیثیت دینے اور بادشاہ یا شہزادگان کے سفرِ کشمیر جنت نظیر کے دوران شاہی قیام گاہ یا درمیانی منزل کا شرف بخشنے کی خاطر اِس ٹیلے پر ایک پختہ حصار کی تعمیر کروائی۔ جس میں علاوہ رہائشی عمارات، مسجد، حمام، ڈھکی اور باولی برائے بہم رسائی آپ بھی بنوائے گئے۔ اِس قلعہ کی فصیل معہ متعدد بروج تعمیر ھوئی۔ قلعہ کے جنوب مشرق کی جانب اِس سے ملحق شاہی بارود خانہ کی تعمیر کی گئِی اور ایک محلہ کی صورت میں چند مکانات کی تعمیر برائے رہائش حکام و ملازمین سرکار عمل