Posts

Hast-o-Bood Part-24

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ درگاہ حضرت بَل خواجہ صاھب سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ھوئے لاھور پہنچتے ہی بیمار پڑ گئے۔ سرکاری گماشتے بھی جلد ہی لاھور پہنچ گئے اور خواجہ نورالدین ایشہ بری کو معہ حبشی غلام اور موئے مبارک ساتھ لیکر شہنشاہ ہند کی خدمت میں دہلی پہنچ گئَے۔ خواجہ صاحب اس صدمہ کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ شہنشاہ محی الدین اورنگزیب نے انتہائی شوق اور عقیدت و احترام سے موئے مبارک کی زیارت کی اور حکم دیا کہ اس نایاب عطیہ الہی کو بصد احترام خواجہ معین الدین چشتی بمقام اجمیر شریف لے جا کر خلق خدا کی زیارت کے لیے محفوظ کیا جائے۔ شاہ وقت  کے حکم کی فی الفور تعمیل کی گئی۔ لیکن موئے مبارک کو اجمیر شریف پہنچے ابھِی نو دن ہی گزرے تھے کہ شہنشاہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ موئے مبارک کو فی الفور کشمیر بھِیج دیا جائے۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی شہنشاہ نے اس فرمان نبوی کی تعمیل میں حبشی غلام کو خلعت سے نوازا اور شاہی خدام کی معیت میں بکمال شان و شوکت بصد احترام موئے مبارک  ایک مرصع صندوقچہ میں ریاستِ ک

Hast-o-Bood Part-23

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ شہنشاہ جہانگیر کی وفات کے بعد[۱] شہزادہ خرم بطور ابوالمظفر شہاب الدین شاہجہاں شہنشاہ ہند ھوا۔ اس نے اپنی دور حکومت سن سولہ سو ستائیس عیسوی تا سن سولہ سو ستاون عیسوی میں چار مرتبہ کشمیر کی سیاحت کی۔ پہلی مرتبہ وہ سن سولہ سو پینتیس عیسوی میں، دوسری مرتبہ سن سولہ سو اڑتیس عیسوی میں، تسری دفعہ سن سولہ سو بیالیس عیسوی میں اور چوتھِی اور آخری مرتبہ سن سولہ سو پچاس عیسوی میں رونق افروز کشمیر ھوا۔ وہ تعمیرات کا دلدادہ تھا۔ اُس نے یہاں متعدد باغ لگوائے۔ محلات، حمام، بارہ دریاں وغیرہ تعمیر کروائیں اور اپنے اجداد کی تعمرات کی مرمت اور ان میں توسیع کروائی۔ اپنے جمالیاتی ذوق کی وجہ سے بھِی یہ مغل تاجدار بہت نیک نام ہے۔ اُسی نے بیس کروڑ کی لاگت سے تختِ طائوس بنوایا تھا۔  اور اُسی نے دنیا کا آٹھواں عجوبہ "تاج محل" آگرہ میں اپنی چاہتی ملکہ ممتاز محل کی وفات پر بطور نظرانہ محبت و عقیدت تعمیر کرایا تھا۔ شہنشاہ جہاں کی وفات پر اُس کا غایت درجہ کریم النفس، عادل، منصف مزاج، متقی اور دیندار بیٹا محی الدین اورنگزیب عالمگیر بادشاہ سریر آرا

Raja Muhammad Khalaq (Shaheed)

Image
راجہ محمد خالق خان شہید ( وہ زمانہ میں ایک زمانہ تھے) تحریر: راجہ سکندر راجہ محمد خالق خان عرف سیٹھ راجہ خالق 1953 میں حاجی راجہ ولایت خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی جنم بھومی تحصیل و ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کی مردم خیز دھرتی کلاہ اٹھروئیں ہے۔ آپ حاجی راجہ ولایت خان کی اولاد میں چوتھے نمبر پر تھے۔ آپ کے والد ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کہ باوجود اپنے قبیلے منگرال راجپوت میں خاصہ اثر رسوخ رکھتے تھے۔ راجہ محمد خالق خان نے سکینڈری تک تعلیم حاصل کی لیکن آپ تعلیم سے زیادہ کاروبار میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تعلیم کو چھوڑا اور کاروبار میں لگ گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آپ ضلع کوٹلی کے بڑے کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ راجہ محمد خالق خان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انجمن تاجران ضلع کوٹلی نے متفقہ طور پرصدر منتخب کیا۔ انجمن تاجراں کا اپ کو صدر بنانے کافیصلہ درست ثابت ہوا اور آپ نے تاجروں کے مسائل حل کروانے کے ساتھ ساتھ ان کے باہمی اختلافات کو بھی ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ تا دم مرگ انجمن تاجران کے صدر رہے اور اپنی صلاحیتیں لوگوں کے مسائل کے

Hast-o-Bood Part-22

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ راجوری  اس پر یعقوب چِک نے اُس پر اپنے خلاف شمس چِک اور مغل حکمران ہندوستان کے ساتھ ساز باز کا جھوٹا الزام لگا کر شہید کر دیا اور اسی بر بس نہ کیا بلکہ اس کی برہنہ لاش کو ہاتھی کی دم سے ساتھ باندھ کر تمام شہر میں تشہیر کرائِی گئی۔ قاضی موسی شہید سنّی عقیدہ کے حامل ملک کے قاضی القضات تصّور ہوتے تھے۔ اُن کا قصور صرف اس قدر تھا کہ انہوں نے یعقوب چِک کے ایماء کے مطابق یہ فتوے دینے سے انکار کر کیا کہ موّذن لوگ آذان میں کلمہ "علی ولی اللہ" شامل کیا کریں کیونکہ وہ ایسا کرنا خلافِ شرح محمدی سمجھتے تھے۔ چِک حکمرانوں کے بھڑھتے ہوئے ظلم و استبداد سے تنگ آ کر کشمیر کے دو فرزند بابا داود خاکی اور شیخ یعقوب صرفی آخری سلطان یوسف شاہ چِک کے زمانہ میں سال پندرہ سو پچاسی عیسوی میں دربار دہلی کے مغل فرمانروا [۱] شہنشاہ جلال الدین اکبر بادشاہ کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئے اور سنّی مسلم رعایا کشمیر کی داستانِ خونچکاں اور اُن کی تحقیر کے متعدد واقعات بادشاہ کے گوش گزار کیے۔ جس سے وہ بے حد متاثر ہوا اور اپنے سردار بہادرمان سنگھ کو ریاست پر ف

Hast-o-Bood Part-21

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ بلبل شاہ نے اپنی زاہدانہ زندگی کے بقیہ سال صدرالدین کی معیت میں گزارنے اور سال سات سو ستائیس ہجری بمطابق تیرہ سو چھبیس عیسوی یعنی صرف دو سال بعد تک بقید حیات رہ کر اس دنیا سے کوچ کیا۔ اس صوفی منش مبلغ اسلام کی سعی سے ریاست کشمیر میں اسلامی مملکت کا ظہور ہوا اور صدرالدین کی حکومت کے بعد اٹھارہ سو انیس عیسوی تک کل چار سو چرانوے سال مسلمان حکمران ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ان سب نے رعایا سے پورے اخلاص و رواداری سے بلالحاظ ملک و ملت ترجیحی سلوک کیا۔ ان کے ہر دکھ درد میں شریک رہنے کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں حکومت کی اور اُس وقت تک اس سلطنت کو زوال سے دو چار نہ ہونا پڑا جب تک اس کے کرتا دھرتا عیش و عشرت، بے راہ روی، ظلم و تشدد، اور تعصب کا شکار نہ ہوئے۔ ریچن شاہ کے ساتھ ساتھ جو دوسرا شخص ریاستِ کشمیر میں داخل ہوا وہ علاقہ سواد کنیر کا ایک سیاح [۱] شاہ میر نامی تھا۔ وہ گو جملہ علوم سے واقف تھا اور علم و فضل کے لحاظ سے یکتائے روزگار تھا لیکن غریب الوطنی[پردیس] اور ناواقفیت کی بنا پرچندے سرگرداں پھرا۔ آخر اس کے بخت نے یاور

Hast-o-Bood Part-20

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ ایک دوسری روایت [۱]کے مطابق کیشپ نامی ایک دیو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سیر و تفریح کے لیے جب ادھر  آ نکلے تو انہیں ستی سر جھیل اور اس کے اردگرد برف پوش پہاڑ بہت بھلے لگے۔  چنانچہ انہوں نے اس جگہ لوگوں کو آباد کرنے کی ٹھانی۔ اپنے منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کیشپ دیو کو جھیل ستی سر کا پانی خشک کرنے کا حکم دیا۔ جس نے بارا مولا کے مقام سے پہاڑ کو کاٹ کر متعدد جگہوں سے جھیل کا پانی مختلف ندی نالوں میں بہا دیا اور اس طرح ان لوگوں کو اس خشک خطہ اراضی پر آباد کیا گیا۔ اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں ایک دیو کشف نامی میر نامی پری پر فریفتہ تھا۔ جو اس کو خاطر میں لاتی تھی۔ اُس نے اس بارہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں استدعا کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو دوران سیاحت اس دلفریب خطہ کو دیکھ چکے تھے اس دیو سے فرمایا کہ اگر تم جھیل ستی سر کے پانی کو ختم کر دو تو تمہیں گُوہر مقصود مل جائے گا۔ چنانچہ کشف دیو نے پہاڑ کاٹ کر جھیل کا تمام پانی

Hast-o-Bood Part-19

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Holar Dam Side Kotali کشمیر کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار ایک سو سال سے زائد سالوں پر محیط ہے۔ قدیم کتابوں [۱] نیلہ مت، مصنفہ پنڈت نیل ناگ، راج ترگنی، مصنفہ کلہن پنڈت وزیر و مشیر خاص راجہ جے سنگھ والیے ریاست جموں کشمیر، پوران، رامائن، مہابھارت، برتھ کتھا، بھگوت گیتا، شاد کا مہاتم، وید شاستر اور دیگر کتب جو برصغیر پاک و ہند میں تصنیف و تالیف ہوئیں سے کشمیر کی ہیئت، محل وقوع اور زندگی کے ارتقاء کے بارہ میں مستند حالات کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ کیونکہ ریاست کی تقدیر غیر منقسم ہندوستان سے اوائل سے ہی وابستہ تھی اس لیے نا صرف شمالی ہند سے بلکہ ہندوستان کے متعدد علاقوں سے زمانہِ قدیم کے طالب علم حقیقت رشی مُنی، قدرتی مناظر، پہاڑوں، غاروں اور جنگلوں میں یکسوئی اور گیان دھان کی منزلوں کو دنیاوی شور اور شر سے دور طے کرنے کے لیے گوشہ ہائے عافیت کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ہندوستان میں مہذب انسانی زندگی کا ارتقاء منو جی کے دھرم شاشتر کے مطابق برہما سے ہوا۔ اس کے دو پسر وچھ یعنی سورج اور اترا یعنی سُوم یا چندرما کے جنم سے سورج بنسی اور چندر