Posts

Showing posts from June, 2020

Hast-o-Bood Part-10

Image
باب دوم وطنیت اور قومیت کا تصور دنیا کے مختلف ممالک میں نسل، گروہ، چھوٹی تعلقہ داریوں، ریاست کے انتظام و انصرام کی اکائیوں یا کسی سربارہِ کنبہ اور اس کے ورثاء کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کا رواج قدیم ایام سے چلا آ رہا ہے۔ علاقائی سیادت و قیادت کے علاوہ انبیاء کرام علیہ السلام کی مختلف اقوام کو ھدایت کے لیے بعثت قومیت اور محدود وطنیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اسلام اخوت و بھائی چارہ ایک زندہ و پائندہ حقیقت ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مکارم اخلاق و باہمی اخوت کے امین اور سراجِ منیر ہیں اپنی عملی زندگی میں اکثر و بیشتر یہی تلقین فرمائی کہ                    ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا  اس کے باوجود مختلف کاتب فکر اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے نظریات کی تشہیر میں سرگرمِ عمل ہیں اور رہیں گے۔ تاہم نظریہ قومیت اور وطنیت کے سلسلہ میں اسلامی نقطہِ نظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں کلام اللہ اور سنت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے استنباط کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے ہم اسلام میں نظریہ وطنیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔  خود سرورکائنات فخرِموجودات صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے مولدِپاک

Hast-o-Bood PART-9

Image
باب اول  ظہور انسانیت اور قومیت کا تخیل ذات حق نے عالم موجودات کی تشکیل سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی جن سے موجودہ نسلِ انسانی کا ظہور ہوا۔ اوائل ہی سے فطرتِ انسانی میں انفرادیت، نمو اور بقائے دوام کا جذبہ کارفرما ہوا۔ ہابیل [سورۃ مائدہ قرآن حکیم] اور قابیل فرزاندانِ سیدنا آدم علیہ السلام کی باہمی کشمکش ہابیل کے قتل کا محرک بنی۔ چنانچہ اسی جبلی احساسِ خود بینی کی نشو نما نے خود ستانی اور ذاتی نمو کا جذبہ پیدا کیا جو بعد میں گروہ بندی، قبیلہ سازی اور فرمانروی کا باعث بنی۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی جو براعظم ایشیا کا ایک نمایاں خطہ ہےتاریخ انسانی کا آغاز پتھر اور دھات کے زمانہ سے ہوا۔ انسان مختلف ادوار سے گزرتا تاریخی شواہد کے مطابق شمال مغرب سے آریائوں کی یلغار اس ملک کے قدیم باشندوں کول، بھیل، دڑاوڑ وغیرہم کو جنوب اور جنوب مشرق کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور اس طرح یہاں پر نووارد اقوام کی حاکمیت قائم ہوئی۔ جنہوں نے یہاں مستقلاً قیام کر کے ایک سوسائیٹی کو جنم دیا۔ کیونکہ وہ سب پاکیزگیِ خون کے تحفظ کے داعی اور ذاتی برتری کے جنون کے حامل ہونے کے باوصف گروہی کامرانی کے داعی فروغ ک

Hast-o-Bood Part-8

نوجوانانِ قوم کے نام نقش پا اس ڈھب سے دنیا میں جماتے جائیے  راہروں کو راہ منزل کی دکھاتے جائیے  کار فرما قُم باذن اللہ کی تغیر ہے وحدت ملی سے گرتوں کو اٹھاتے جائیے پھر خلوص دل سے ہو تقلیدِ رسمِ اہل حق پھر مئے توحید، عالِم کو پلاتے جائیے  ضبط آہ ہو یا تو متحمل سکوت و صبر کی ہو فغاں تو ایک بستی کو جگاتے جائیے "لن ترانی" کی ندا سے مطمئن ہونا بھلا "رب ارنی" کہہ کر غش نہ ہر گز کھاتے جائیے انفرادیت سے گھبرائیے غلامی ہے یہی قطرہ کو دریا کی نوعیت بناتے جائیے روحِ قربانی سے زندہ ہے جوانمبردوں کا نام ہو کھٹن منزل سرراہ مسکراتے جائیے زندہ قوموں کی متاع ان کے جوانانِ غیور مثل شاہین وسعت گردوں پہ چھاتے جائیے اتحاد و ضبط نظم قوم سے اعجازؔ کفر کی اقدار مٹی میں ملاتے جائیے اِعجاز نبی اِعجازؔ

Hast-o-Bood Part-7

Image
ہست و بود مقدمہ کتاب ڈاکٹر میاں محمد آفتاب اصغر علم تاریخ دنیا کے قدیم ترین اور مفید ترین علوم میں شمار ہوتا ہے اور جامہ انسانی کے انفرادی اور اجتماعی اعمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ اگر تاریخ، جس کا بنیادی مقصد اسلاف کے خوشگوار اور نا خوشگوار تعلقات اور ان کے برے یا بھلے نتائج کو اخلاف تک پہنچا کر ان کو کجروی سے بچانا اور راہ راست پر لانا چلانا ہوتا ہے، مختلف شعبہ ہائے حیات میں گزشتہ نسلوں کے تجربات آئندہ نسلوں تک نہ پہنچاتی تو شاید کوئی ملک، یا کوئِی خاندان یا کوئی فرد ترقی کی منازل طے نہ کر پاتا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے توسط سے مختلف اقوام و افراد اور خانوادے ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے حال کو حسب منشاء ڈھال سکتے ہیں اور مستقبل میں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعادہ نہ کر کے ان کے ناخوشگوار نتائج سے بچ سکتے ہیں۔  بزرگوارم جناب میاں اعجاز نبی صاحب [پی سی ایس ریٹائرڈ] نے جو گجرات [پنجاب] کے قدیم اشرافی خاندان منگرال راجپوت کے چشم و چراغ ہیں تاریخ کی اسی ضرورت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اپنے معزز و محترم خاندان کی یہ مختصر سی تاریخ قلم بند ف

Hast-o-Bood Part-6

Image
ہست و بود تعارف مصنف میاں اعجاز نبی  بقلم شریف کنجاہی  Baradari Kunjah Dist. Gujrat  اپنے بچوں کو اچھا شہری بننے تلقین کرنے والا باپ بھی وہی کام کر رہا ہوتا ہےجو ملک و قوم میں شہریت کے بہتر احساسات پیدا کرنے والا ریفارمر یا حاکم کر رہا ہوتا ہے اور عنداللہ دونوں ایک سے ماجور کہ ایک کے تعاون کے بغیر دوسرے کا کام دشوار ہوجاتا ہے۔ اس طرح منگرال قوم [قبیلہ] کےک نوجوانوں کو مصارف زندگی میں مردانہ وار قدم رکھنے کی ترغیب دینے کے لیے اس قوم کے بزرگوں کی زندگیوں کے مواقع ان کے سامنے پیش کرنا، جیسا کہ مصنف نے خود بھی کہا ہے بجار طور پر ملی اور اسلامی خدمت ہے ۔ یہ ایک ناقابل تردید نفسیاتی حقیقت ہے کہ میاں محمد اعظم، میاں نورد خان اور میاں رسول بخش کی زندگیوں کے نشیب و فراز منگرال قوم کے نونہالوں کے لیے کشور کشان جہاں سے زیادہ اثر انگیز اور نقش ریز ہو سکتے ہیں کہ ان میں ایک ذاتی حوالہ شامل ہے۔ وہی حوالہ جس کے بناء پر پنجابی اور پاکستانی ہوتے ہوئے میں اپنے آپ کو کنجاہی کہتا ہوں۔  جیسا کہ میاں صاحب نے خود بھی لکھا ہے منگرال قوم [قبیلہ] پر اس سے پہلے کسی نے ڈھب سے قلم نہیں اٹھایا۔ اس لیے ہر ایسے نقش ا

Hast-o-Bood Part-5

Image
ہست و بود تعارف مصنف بقلم شریف کنجاہی شریف کنجاہی  ۱۹۱۴-۲۰۰۷ ہست و بود کے مصنف میاں اعجاز نبی صاحب کے ساتھ میرے روابط طالب علمی کے رفاقت طلب ایام سے ہیں۔ جن میں ایک قدرِمشترک شعروادب سے دونوں کی دلچسپی تھی۔ اور یہی قدر ہمیں زندگی کا بیشر حصہ "از دیدہ دور" گزارنے کے باوجود ایک دوسرے سے "از دل دور" نہ کر سکی۔ اور جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر گجرات آ گئے اور مطالعہ کے شغل دیرینہ کے ساتھ تصنیف و تالیف کی طرف رجوع کیا تو اپنی اولین تخلیق کا تعارف کروانے کا شرف مجھے بخشا۔ میں میاں صاحب کو بطور شاعر تو جانتا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا اشہب قلم نثر کی وادیوں میں بھی اسی رفتار کے ساتھ چلتا ہے اور دونوں اصناف میں ان کا مقصد و منتہا وہی ہے جس کا خلاصہ ان کی وہ نظم ہے جو کتاب کے آغاز میں درج ہے۔ اس نظم اور اس نثر کے مطالعہ سے جو بات فوری طور پر سامنے آتی ہےوہ یہ ہے کہ میاں صاحب ان نیک طبع لوگوں میں سے ہیں جو مستقبل کو گرم و تابناک دیکھنے کے لیے ماضی کی راکھ میں چنگاریاں اگھٹی کر کے حال کی گیلی سوکھی لکڑیوں کو الائو میں تبدیل کرنے ک

Hast-o-Bood Part-4

Image
ہست و بود Old Building of the Punjab Provincial Cooperative bank Ltd at Ram Talaee Road, Gujrat  [پیش لفظ] صفحہ نمبر ۱۵ میاں اعجاز نبی مرحوم زیر نظر تالیف میں گجرات کی خاک میں آسودہ جن جن بزرگ اصحاب قوم[قبیلہ] کی تصاویر مہیا ہو سکی ہیں شامل کر دی گئی ہیں۔ نا سپاس گزاری ہو گی اگر میں برادرز عزیز میجر بشیرالحسان صاحب پاکستان پوسٹل سروس حال پوسٹ ماسٹر جنرل لاھور سرکل و میاں فیاض اصغر چیئرمین و ٹیکنیکل ڈائیریکٹر درسی ادارہ لیمیٹد گجرات کا شکریہ ادا نہ کروں۔ جنہوں نے اس کتاب کی ترتیب و تدوین کے لیےمختلف ذرائع سے متعلقہ کتب کی فراہمی کا بندوبست فرمایا اور پوری دلچسپی کا اظہار فرمایا۔  موخر الذکر نے اپنے زیر تحویل مصدقہ شجرہ نسب قوم [قبیلہ] اور شاہی دستاویزات کا عکس عطا کر کے تکمیل شجرہ نصب اور کتاب کی افادیت کا سامان کیا۔ راقم جناب شریف کنجاہی صاحب کا بھی ممنون احسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا تعارف رقم کیا اور جناب میاں محمد آفتاب اصغر کا بھی سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی گوں ناگوں مصروفیت کے باوجود اس حقیر سی پیشکس کا مختصر سا مقدمہ تحریر فرمایا۔ برادر بزرگ حاجی شیخ محمد ایوب صاحب ڈپٹی سی

Hast o bood ... Part-3

ہست و بود پیش لفظ صفحہ نمبر ۱۲ ایک طرف تو یہ عمومی نظریات تھے جو راقم کے ذہن کا احاطہ کیے ہوئے تھے اور دوسری جانب ایک خاص مقصد میرے دماغ کے کے ایک گوشے میں محفوظ تھا کہ کیا کسی طرح ہر دو اطراف یعنی ریاست کشمیر اور گجرات پنجاب کے رشتہ دار جو صدیوں سے ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں آپس میں مل سکتے ہیں؟ یا کم از کم دونوں جانب اپنائیت کا احساس اجاگر کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا میری حقیر سی کوشش سے قومی یکجہتی کی بنا ڈالی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہو تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ آج کل مختلف طبقات کی باہمی آمیزش اور اختلاط کی عالمگیر کوششیں جاری ہیں اور ہماری دنیا جو ایک زمانہ میں نئی اور پرانی دنیا کے چکر میں تھی سمٹی جا رہی ہے۔  مخالف اور متحارب بلاک ایک دوسرے کے خیالات میں ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلام جو عالمی بھائی چارہ اور مساوات کا داعی ہے بھی ہم سے مقتصی ہے کہ ۔ راشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے ہیں انہی جذبات اور تاثرات کے تانے بانے اگرچہ عرصہ سے شعور کی پنہائیوں میں گم رہے لیکن کسی آن بھی معدوم نہ ہوئے۔ عہد تعلیم میں ذہن کی نا پختگی اور