Hast-o-Bood Part-10

باب دوم

وطنیت اور قومیت کا تصور





دنیا کے مختلف ممالک میں نسل، گروہ، چھوٹی تعلقہ داریوں، ریاست کے انتظام و انصرام کی اکائیوں یا کسی سربارہِ کنبہ اور اس کے ورثاء کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کا رواج قدیم ایام سے چلا آ رہا ہے۔ علاقائی سیادت و قیادت کے علاوہ انبیاء کرام علیہ السلام کی مختلف اقوام کو ھدایت کے لیے بعثت قومیت اور محدود وطنیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اسلام اخوت و بھائی چارہ ایک زندہ و پائندہ حقیقت ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مکارم اخلاق و باہمی اخوت کے امین اور سراجِ منیر ہیں اپنی عملی زندگی میں اکثر و بیشتر یہی تلقین فرمائی کہ 

                  ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا 

اس کے باوجود مختلف کاتب فکر اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے نظریات کی تشہیر میں سرگرمِ عمل ہیں اور رہیں گے۔ تاہم نظریہ قومیت اور وطنیت کے سلسلہ میں اسلامی نقطہِ نظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں کلام اللہ اور سنت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے استنباط کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے ہم اسلام میں نظریہ وطنیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ 

خود سرورکائنات فخرِموجودات صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے مولدِپاک مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ میں ہجرت فرما کر مستقلاً آباد ہونا اور صحابہ کرام رض اجمعین کا اپنے اپنے وطن کو ان کی تقلید میں چھوڑ کر مدینہ معظمہ میں نقل مکانی کے بعد اکثر کا اسی سرزمین میں آسودہ خاک ہونا۔ بلکہ اطراف عالم میں تبلیغ دین کے لیے مدینہ طیبہ کو بھی چھوڑ جانا، نظریہ محدود وطنیت کی واضع الفاظ میں نفی کرتا ہے۔

جارہی ہے۔۔۔۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں