Hast-o-Bood PART-9

باب اول 

ظہور انسانیت اور قومیت کا تخیل



ذات حق نے عالم موجودات کی تشکیل سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی جن سے موجودہ نسلِ انسانی کا ظہور ہوا۔ اوائل ہی سے فطرتِ انسانی میں انفرادیت، نمو اور بقائے دوام کا جذبہ کارفرما ہوا۔ ہابیل [سورۃ مائدہ قرآن حکیم] اور قابیل فرزاندانِ سیدنا آدم علیہ السلام کی باہمی کشمکش ہابیل کے قتل کا محرک بنی۔ چنانچہ اسی جبلی احساسِ خود بینی کی نشو نما نے خود ستانی اور ذاتی نمو کا جذبہ پیدا کیا جو بعد میں گروہ بندی، قبیلہ سازی اور فرمانروی کا باعث بنی۔

برصغیر پاک و ہند میں بھی جو براعظم ایشیا کا ایک نمایاں خطہ ہےتاریخ انسانی کا آغاز پتھر اور دھات کے زمانہ سے ہوا۔ انسان مختلف ادوار سے گزرتا تاریخی شواہد کے مطابق شمال مغرب سے آریائوں کی یلغار اس ملک کے قدیم باشندوں کول، بھیل، دڑاوڑ وغیرہم کو جنوب اور جنوب مشرق کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور اس طرح یہاں پر نووارد اقوام کی حاکمیت قائم ہوئی۔ جنہوں نے یہاں مستقلاً قیام کر کے ایک سوسائیٹی کو جنم دیا۔ کیونکہ وہ سب پاکیزگیِ خون کے تحفظ کے داعی اور ذاتی برتری کے جنون کے حامل ہونے کے باوصف گروہی کامرانی کے داعی فروغ کے متمنی تھے اس لیے انہی خیالات اور نظریات نے منوجی کو "منو سمرتی" کی تحریر پر اکسایا چنانچہ منوجی نے اپنے دور کے تقاضوں کے پیش نظر انسانوں کو پانچ مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا۔ اور سب سے پہلے اس ملک میں یہیں سے ذات پات کی ابتداء ہوئی۔ اس درجہ بندی نے "برہمن" کا طبقہِ اعلی تشکیل کیا۔ جس کا منصب علم و تدریس کے علاوہ مذہبی راہنمائی اور رسوماتِ مذہبی کی سرانجام دہی کے باعث جلیل القدر مانا گیا۔ 

دوسرے نمبر پر "کھشتری" رہا۔ جس کو مخالف اقوام سے جنگ اور دفاع ملک کی ذمہ داری تفویض ہوئی۔

تیسرے نمبر پر "ریش" کو رکھا گیا اور اس کے ذمہ کھیتی باڑی کا کام لگا۔ 

چوتھے نمبر پر "شودر" کی تشکیل عمل میں آئی۔ اور اس کو دستکاری کے علاوہ بطور خادم کام سرانجام دینے کی ڈیوٹی ملی۔

سب سے نیچ طبقہ "چنڈال" کہلایا جس کو چوہڑے چمار کا کام دیا گیا اور یہ طبقہ مفتوحہ مقامی آبادی پر مشتمل تھا جو آریائوں کی لشکر کشی پر اپنے وطن عزیز کی حفاظت کرنے سے قاصر رہی۔ چنانچہ یہ طبقاتی تقسیم ہندوستان میں اشاعت اسلام تک مروج رہی۔ تآنکہ مختلف ادوارِما بعد میں متعدد فاتح اس برصغیر میں آئے جن کی اکثریت اسی سرزمین میں مستقلاً آباد ہو گئی جس سے نا صرف قدیم فرسودہ نظام تغیر پذیر ہوا بلکہ اسلامی نظریہِ حیات کو عام شرف قبولیت ملا۔ قدیم سوسائیٹی کے محاسن اور اسلامی نظریات کی آمیزش کے نتیجہ میں مسلمان حکمرانوں نے اپنی اخلاقی اقدار اور باہمی خاندانی ارتباط سے اس ملک کی جدید سوسائیٹی کی تشکیل کے کے روابط آقاء و رعایا میں ایک حسین امتزاج پیدا کر دیا۔

شدہ شدہ اس خطہِ ارضی میں کئی اقوام ایسی صفات کی حامل ابھریں جن کے منفرد طالع آزما، جنگ جوئی، شجاعت، مردانگی منفرد شخصی و ذاتی اور علاقائی اوصاف کی بناء پر سرکردہ یا سردار کنبہ ہونے کی وجہ سے کسی قوم کی خاص گوت کا آغاز ثابت ہوا۔ یوں مختلف اقوام شیخ، سید، مغل، خلجی، لودھی، افغان، ترکمان، چوہان، درانی، راجپوت، کشمیری، جات وغیرہ میں گوت کا نیا تصور ابھرا۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 




[بلاگر کا کتاب کی متن سے متفق ہونا ضروری نہیں]

Comments

  1. ہندو مزہب میں تیدرے درجے پر جو زات آٹی ہے وہ "ریش" ہے یا "ویش"؟ ۔ کیونکہ نساب کی تاریخی کتابوں میں برہمن, کھشتری, ویش اور شودر لکھا ہوا ملتا ہے۔ شکریہ

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں