Hast-o-Bood Part-7
ہست و بود
مقدمہ کتاب
ڈاکٹر میاں محمد آفتاب اصغر
علم تاریخ دنیا کے قدیم ترین اور مفید ترین علوم میں شمار ہوتا ہے اور جامہ انسانی کے انفرادی اور اجتماعی اعمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ اگر تاریخ، جس کا بنیادی مقصد اسلاف کے خوشگوار اور نا خوشگوار تعلقات اور ان کے برے یا بھلے نتائج کو اخلاف تک پہنچا کر ان کو کجروی سے بچانا اور راہ راست پر لانا چلانا ہوتا ہے، مختلف شعبہ ہائے حیات میں گزشتہ نسلوں کے تجربات آئندہ نسلوں تک نہ پہنچاتی تو شاید کوئی ملک، یا کوئِی خاندان یا کوئی فرد ترقی کی منازل طے نہ کر پاتا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے توسط سے مختلف اقوام و افراد اور خانوادے ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے حال کو حسب منشاء ڈھال سکتے ہیں اور مستقبل میں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعادہ نہ کر کے ان کے ناخوشگوار نتائج سے بچ سکتے ہیں۔
بزرگوارم جناب میاں اعجاز نبی صاحب [پی سی ایس ریٹائرڈ] نے جو گجرات [پنجاب] کے قدیم اشرافی خاندان منگرال راجپوت کے چشم و چراغ ہیں تاریخ کی اسی ضرورت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اپنے معزز و محترم خاندان کی یہ مختصر سی تاریخ قلم بند فرمائی ہے۔
میاں صاحب موصوف نے تاریخ منگرال گجرات لکھ کر محض اپنا خاندانی فرض ہی ادا نہیں کیا ہے بلکہ اپنی اس خدمت عظیم سے خاندان منگرالاں کے فرد فرد کو اپنا رہین احسان بھی بنا لیا ہے۔
اب تک خانوادہ منگرالاں گجرات کے موجودہ افراد کے پاس جناب میاں محمد اشرف صاحب مرحوم کے مرتب کردہ مستند اور مصدقہ نسب نامہ کے سوا اور موثق تاریخی ماخذ موجود نہ تھا اور ان کی تاریخ سرکاری دستاویزات، قبائل و عشائر کی تواریخ اور بزرگوں کے حافظوں میں محفوظ چلی آ رہی تھی۔ بزرگوں کے تیزی کے ساتھ اس دنیائے فانی سے اٹھتے چلے جانے کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ کہیں اس تاریخی خاندان تاریخ حوادثِ روزگار کا شکار ہو کر تلف نہ ہو جائے۔ زیر نظر کتاب کے مصنف بجا طور پر اپنے اہل خاندان کے تشکر و امتنان کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بروقت اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اس تمام پراگندہ اور منتشر مواد کی جمع آوری کی طرف توجہ کر کے اس کو کتابی صورت میں یکجا کر دیا ہے اور اپنے خاندان کو قصر گمنامی میں گرنے سے بچا لیا ہے۔ ان کی مساعی جمیلہ اور مخلصانہ کاوش و زحمت کشی کے باعث گجرات کے منگرال راجپوت خاندان کے مختلف افراد کی جہد للبقاء اور شاندار ارتقاء کی قابل فخر تعریف جو کہ گردش لیل و نہار کی گرد سے اٹی پڑی تھی اور ماہ و سال کے دھندلکوں میں لپٹی ہوئِی تھی، کافی حد تک روشنی میں آ گئی ہے اور ماضی کی یہ روشنی جو بلاشبہ ان کی کوششوں کی مرہون منت ہے یقیناً منگرالوں کی نژاد نو کے مستقبل کو روشن تر بنانے میں ممدو و معاون ثابت ہو گی۔
یقین کامل ہے کہ منگرالوں کا یہ تذکرہ اسلاف و احناف ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے تمام افراد کے لیے نہ صرف یہ کہ مشعل راہ اور کتابِ راہنما کا کام دے گا بلکہ ان میں احساسِ خودشناسی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے اور قرابتداری کے باوجود ایک دوسرے سے دور اور بیگانہ افرادِخاندان کو ایک دوسرے سے متعارف کرانے، آپس میں مربوط کرنے اور ان بکھرے ہوئے موتیوں کو وحدت و یگانگت کی لڑی میں پرنے کا باعث بنے گا۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ؛
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں فاضل مولف نے اس کے باوجود کہ تصنیف و تالیف اور خاص طور پر تاریخ نویسی ان کا اصل میدان نہیں ہے، اس تاریخی تصنیف میں اپنے غیر معمولی تاریخی شغف کا مظاہرہ کیا ہے اور دادِتحقیق و تفتیش دیتے ہوئے اس کو مفید سے مفید تر تاریخی دستاویزبنانے کی سعی فرمائی ہے۔ اعماق قلب سے یہ دُعا نکلتی ہے کہ خداوندِقادر و توانا منگرال خاندان کے اس مایہ ناز فرزند اور عظیم محسن کو صحت و سلامتی کے ساتھ تادیر سلامت رکھے اور اس کو اپنی تاریخی خاندان کی قدیم تاریخ کے تاریک گوشوں کو اجاگر کرنے کی مزید توانائی عطار فرمائے۔
امید واثق ہے کہ یہ تاریخ نہ صرف خانوادہ منگرال کی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموارکرے گا بلکہ خود مولف کو اس خاندان کی تاریخ میں بقائے دوام سے ہمکنار کر دے گا۔
ڈاکٹر میاں محمد آفتاب اصغر، ایم اے، پی ایچ ڈی [تہران]
استادِشعبہ فارسی و انشاہِ پنجاب، لاہور
۴۹۴، شادمان کالونی، لاہور
3 May 1977
[مترجم کا کتاب کے مندرجات و متن سے متفق ہونا ضروری نہیں]
Great work
ReplyDeleteGood work Raja sb
ReplyDeleteمیاں آفتاب اصغر صاحب نے بلکل بجا کہا ۔ میاں اعجاز نبی اور چند دیگر منگرال سپوت اگر اگر یہ کاوش نہ کرتے تو یہ قیمتی ورثہ تاریخ کی دھند میں گم ہو گیا ہوتا۔
ReplyDelete