Hast-o-Bood Part-2

ہست و بود

پیش لفظ
صفحہ نمبر10-11


قوم [قبیلہ] منگرال راجپوت کے کچھ ایسے سپوت بھی تھے جو اپنی قوت، جبروت، مخصوص عادات، خصائل، کردار اور تخلیقات کی بناء پردوسروں سے متمیز ہوئے۔ تاریخ عالم کی ورق گردانی سے مختلف بادشاہوں اور طالع آزمائوں نے مختلف اقوام اور گوتوں کے حوالہ سے اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں اور بعض ایسے بھی تھے کہ

پیشہ سمجھتے تھے جسے ہو گئی وہ زات اپنی

کچھ ایسے بھی سخن و گفتار ہوئے کہ زندگی بھر فن کے موتی بکھیرتے رہے اور جب ان کے قدردان ہی موجود نہ تھے تو خود ہی کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے اپنی انا کی تسکین یوں کر گئے کہ "گویم مشکل دگر نہ گویم مشکل" مرزا غالب کو ہی لے لیجئے آج وہ اپنے وقت کے قادرالکلام اور تغرگو شاعر مانے جاتے ہیں لیکن جب تک زندہ رہے عسرت میں گزر بسر کی اور ان کا سو پشت تک کا پیشہ آباء سپہ گری بھی کچھ کام نہ آیا، بادشاہ وقت ابو مظفر بہادر شاہ ظفر کہ علم و فن کا جوہری تھا سے یہی گزارش و استدعا کرتے رہے کہ

آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھائوں ادھار

اس لیے ایسے زیرک ، صاحب سیف و قلم، وضع دار اور ہمہ صفت موصوف اصحاب کو بھلا دینا اور قصر گمنامی کے سپرد کر دینا کس قدر ظلم عظیم کے مترادف ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہنے کی متقصی [خواہش] ہے۔ جہاں بے ثبات کو چھوڑنے سے مفر نہیں لیکن اس کے باوجود صاحب ادراک اور ہوس زندگی کے اسیر اپنے لیے راہیں متعین کرنے کی آڑ میں نگارشات، تخلیقات اور مصوری کے فنون میں پناہ لیتے ہیں اور یوں کتابی صورت میں، مناظر کشی میں، خوش نویسی اور کتابت میں، مجسمہ سازی میں اور دیگر باقی رہنے والی اصناف میں جو ان کی حیات مستعار کے کچھ عرصہ یا ایک زمانہ تک ان کی یاد دلاتی رہے، ایسے اقدام کر جاتے ہیں۔ چنانچہ متعدد ذہنی کاوشیں، تاریخی کتب اور تخلیقی لٹریچر آج کی متمدن دنیا کا بہت بڑا اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ آج کی متمدن اور مہذب دنیا ان نواردات کو اپنے زرومال کے خزانوں سے کہیں بڑھ کر اہمیت دیتی ہے۔ یہی وہ احساس تھا جس نے ہمارے مفکراعظم اور قومی شاعر کی زبان شیریں بیاں سے بصد درد و کرب کہلوایا۔

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

بزرگان سلف کے کارنامنے آئندہ نسلوں کے لیے باعث عبرت اور تقلید ہوتے ہیں۔ جس قبیلہ کی کوئی تاریخ نہ ہو وہ مردہ قبیلہ میں شمار ہوتا ہے۔ تاریخ نگارستان کشمیر کے مصنف نے کس قدر صحیح فرمایا ہے۔


  • "خوش قسمت ہے وہ ملک جس کی صحیح تاریخ مرتب ہو جائے اور خوش قسمت ہے وہ تاجدار جس کے دست کرم سے یہ اہم خدمت سرانجام پائے۔"


راقم اس سلسلے میں اس قدر عرض گزار ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم [قبیلہ] جس کے اکابرین و گزشتگان کے اوصاف حمیدہ اور بلند کرداری کی داستانیں زینت قرطاس بن جائیں اور شرف دوام حاصل کر کے آیندہ نسلوں کے راسخ لائحہ عمل کی نشاندہی کرنے میں ممد ثابت ہوں۔ ان کے زریں کارہائے نمایاں کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ

گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

جاری ۔۔۔۔


#Mangral #Mangral_Rajpoot #Mangral_Rajpute #Hast_o_Bood #Mian_Ejaz_Nabi #Kotali_Mangralan

Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں