Hast o bood ... Part-3

ہست و بود





پیش لفظ صفحہ نمبر ۱۲

ایک طرف تو یہ عمومی نظریات تھے جو راقم کے ذہن کا احاطہ کیے ہوئے تھے اور دوسری جانب ایک خاص مقصد میرے دماغ کے کے ایک گوشے میں محفوظ تھا کہ کیا کسی طرح ہر دو اطراف یعنی ریاست کشمیر اور گجرات پنجاب کے رشتہ دار جو صدیوں سے ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں آپس میں مل سکتے ہیں؟ یا کم از کم دونوں جانب اپنائیت کا احساس اجاگر کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا میری حقیر سی کوشش سے قومی یکجہتی کی بنا ڈالی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہو تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ آج کل مختلف طبقات کی باہمی آمیزش اور اختلاط کی عالمگیر کوششیں جاری ہیں اور ہماری دنیا جو ایک زمانہ میں نئی اور پرانی دنیا کے چکر میں تھی سمٹی جا رہی ہے۔  مخالف اور متحارب بلاک ایک دوسرے کے خیالات میں ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلام جو عالمی بھائی چارہ اور مساوات کا داعی ہے بھی ہم سے مقتصی ہے کہ ۔

راشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے ہیں

انہی جذبات اور تاثرات کے تانے بانے اگرچہ عرصہ سے شعور کی پنہائیوں میں گم رہے لیکن کسی آن بھی معدوم نہ ہوئے۔ عہد تعلیم میں ذہن کی نا پختگی اور ملازمت کے دوران یکسوئی کا فقدان اور عدیم الفرصتی آڑے آئی۔ بالآخر اوائل جنوری ۱۹۷۴ میں ملازمت سرکار سے سبکدوشی کے بعد پورے انہماک سے اس عظیم ذمہ داری کی طرف متوجہ ہوا۔ اس سلسلہ میں کنگ لائبریری گجرات، پنجاب لائبریری لاھور، جناب محمد الدین فوق صاحب کی متعدد کتب، دربارہ اقوام ریاست کشمیر، ریکارڈ مال ضلع گجرات، موجودہ بزرگوں سے اکتساب اور ہر ممکنہ ذرائع سے جو کچھ مہیا ہوسکا اسکا نچوڑ اس حقیر سے نگارش میں ہدیہ ناظرین و قارئین ہے۔  اپنی اس کاوش کو جاذب نظر اور دلچسپ بنانے کے لیے قومیت کا تخیل، اسلام میں قوم اور وطن کا تصور، لفظ راجپوت کا مفہوم، اور گوتوں کا ارتقاء، ریاست کشمیر کا پس منظر و مختصر جائزہ، گجرات کی مختصر تاریخ جیسے موضوعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔  تالیف ھذا کے علاوہ خاندان منگرال راجپوت کا نامکمل شجرہ نسب جو منشی محمد اشرف صاحب کی تحویل میں تھا اور جس میں میاں کمال الدین اور ان کے ورثاء کو شامل نہیں کیا گیا تھا کو بھی مکمل کر کے بعد تصدیق افسران ضلع گجرات شائع کرا دیا گیا۔

مجھے تسلیم ہے کہ تاریخ نویسی کبھی بھی میرا شعبہ نہیں رہا لیکن سکول اور کالج کی زندگی میں تاریخ کا ایک ادنی طالب علم ہونے کے ناطے اور پھر اقوام عالم بالخصوص تاریخ اسلام کا عمیق مطالعہ نے مجھے علم تاریخ کی اہمیت سے کما حقہ روشناس کرایا۔ زمانہ طالب علمی میں فارسی اور اردو شاعری سے لگائو نے اس تالیف میں ادبی مزاج پیدا کرنے کی اُپج کو فروغ  بخشا اور اسے جاذب توجہ بنانے کے لیے جہاں اور جس مقام پر بھی حوالہ کے لیے کسی مصرع یا شعر کا وجدان ہوا میں نے بلا تکلف لکھ دیا۔ اور پھر جبکہ ایسی نگارشات میں واقعات کی رنگینی، مطالعہ کی تشنگی کو بڑھانےکے داعی بن جاتی ہے غیر متعلقہ اصحاب اور قارئین کی بوریت کے احساس کو کم کرنے لیے میری یہ منفرد طرز نگارش نگاہ شوق پر تازیانے کی محرک بن کر رہے گی۔ اور ویسےبھی

ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے باد و ساغر کہے بغیر

یقین واثق ہے کہ میری یہ ناچیز کاوش قوم [قبیلہ] منگرال راجپوت کے حلقہ اراوت سے باہر بھِی قارئین کے لیے دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کا موجب بنے گی اور آنے والی نسلوں میں گجرات کے منگرال خانوادہ کے بارے میں ایک معتبر دستاویز کے طور پر دیکھی اور سمجھی جائے گی۔

میری قسمت سے الہی پائیں یہ رنگ قبول
پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے

جاری ہے ۔۔۔۔ 

#Mangral #Mangral_Rajpoot #Mangral_Rajpute #Hast_o_Bood #Mian_Ejaz_Nabi #Kotali_Mangralan 


Comments

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں