Hast-o-Bood Part-5

ہست و بود

تعارف مصنف بقلم شریف کنجاہی


Shareef Kunjai


شریف کنجاہی 
۱۹۱۴-۲۰۰۷

ہست و بود کے مصنف میاں اعجاز نبی صاحب کے ساتھ میرے روابط طالب علمی کے رفاقت طلب ایام سے ہیں۔ جن میں ایک قدرِمشترک شعروادب سے دونوں کی دلچسپی تھی۔ اور یہی قدر ہمیں زندگی کا بیشر حصہ "از دیدہ دور" گزارنے کے باوجود ایک دوسرے سے "از دل دور" نہ کر سکی۔ اور جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر گجرات آ گئے اور مطالعہ کے شغل دیرینہ کے ساتھ تصنیف و تالیف کی طرف رجوع کیا تو اپنی اولین تخلیق کا تعارف کروانے کا شرف مجھے بخشا۔

میں میاں صاحب کو بطور شاعر تو جانتا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا اشہب قلم نثر کی وادیوں میں بھی اسی رفتار کے ساتھ چلتا ہے اور دونوں اصناف میں ان کا مقصد و منتہا وہی ہے جس کا خلاصہ ان کی وہ نظم ہے جو کتاب کے آغاز میں درج ہے۔ اس نظم اور اس نثر کے مطالعہ سے جو بات فوری طور پر سامنے آتی ہےوہ یہ ہے کہ میاں صاحب ان نیک طبع لوگوں میں سے ہیں جو مستقبل کو گرم و تابناک دیکھنے کے لیے ماضی کی راکھ میں چنگاریاں اگھٹی کر کے حال کی گیلی سوکھی لکڑیوں کو الائو میں تبدیل کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ نیک طبع کی توصیفی ترتیب میں نے اس لیے اضافہ کی ہے کہ دوسروں کے مستقل کے بارہ میں فلاحی جذبہ کے ساتھ سوچنا اس جوہر کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ گلی میں کسی بچے کو دکھی دیکھ کر ہر کوئِی اس کے پاس نہیں رک جاتا اور جو رک جاتا ہے اس کے شیشہِ دل میں ضرور نیک طبعی اور انسان دوستی کی پری مکین ہوتی ہے۔ آخر عمر کا خاصا حصہ گزارنے کے بعد بلاوجہ تو ان کو یہ خیال نہیں آ گیا تھا کہ اپنے اسلاف کی داستان جدوجہد سے نوجوانوں کے قلوب کو گرمایا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب جب تک ملازمت میں رہے وہ صلہ رحمی کے اجمال کی تفصیل بنے، عزیزواقارب کی بساط بھر خدمت کرتے رہے۔ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد اس کارخیر میں حصہ لیتے رہنے کی خواہش ان کو اس طرف لے آئی کہ اپنے ان شعوبی نونہالوں کو جو اثر پزیر سن و سال کے ہیں یہ باتیں بتائیں کہ ان کے بزرگوں نے کارزارِحیات میں جسم و جاں کے کس رویہ کو اپنا امتیاز ٹھہرایا اور اسی کے مطابق سزا اور جزا کے پھول اور کانٹے دامن میں سمیٹے گئے۔ اس ضمن میں ان کی یہ بات بڑی وزنی ہے کہ "محنت کے خوگر کے لیے بھوکا رہنا کسی دور میں بھی مقدر نہیں ہوا کرتا"۔ اقبال نے اس نقطہ کو یوں بیان کیا ہے کہ؛

گرزیک تقدیر خوں گردوجگر
از خودامی خواہ تقدیر دگر

ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ مصنف نے منگرال راجپوتوں کی سرگزشت ہی کو کیوں مشعل بنانا چاہا۔ بظاہر اس کی یہی وجہ نظر آتی ہے کہ میاں صاحب کے سامنے پوری "ملت اسلامیہ" یا "ملت پاکستانیہ" نہیں تھی۔ اپنی مختصر سے "نسلی ملت" تھی جس کی روح کو ولولہ تازہ دینے کے لیے اسی نسل کے اجداد کی داستان فتح و شکست ہی مفید رہ سکتی تھی جس کی میزان میں منگرال قوم [قبیلہ] سے تعلق رکھنے والا ہر فرد اپنے آپ کو تول کر گرانی و سبکی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔

 جاری ہے  ۔۔۔۔۔۔۔

#Mangral #Mangral_Rajpoot #Mangral_Rajpute #Hast_o_Bood #Mian_Ejaz_Nabi #Kotali_Mangralan

Comments

  1. No doubt, anyone can see the writer's class in beauty of literature enriched in this book.

    ReplyDelete
    Replies
    1. ابھی رائیٹر کا صرف پیش لفظ آیا ہے۔ کمال لکھا ہے۔

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Hast-o-Bood Part-11

Hast-o-Bood Part-39

امر محل جموں