Posts

Showing posts from 2020

Hast-o-Bood Part-46

Image
 باب ہشتم میاں کمال دین کے فرزند میاں عبدالوہاب اور اُن کے ورثاء میاں محمدالدین کے سب سے بڑے صاحبزادے میاں محمد نواز مورخہ 7 دسمبر 1899ء کو گجرات میں پیدا ھوئے۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز دفتر ڈپٹی کمیشنر گجرات میں بطور محرر جوڈیشیل کیا۔ اپنی گرم مزاجی اور اُفتاد طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ملازمتِ سرکار سے استعفی دے دیا اور جوان سال میں ہی وکلاء کی منشی گیری اختیار کر لی۔ اِس میں وہ غایت درجہ کامیاب رہے، یہ کام انہوں نے کم و بیش 50 سال تک کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ انجمن منشیان وکلاء گجرات کے صدر منتخب ھوگئے اور اسی حیثیت میں سال 1947 تک رہے۔ تاآنکہ بوجہ کبیر سنی منشی گیری کو خیرآباد کہا۔ باوجود پیرانہ سالی میاں محمد نواز اہل خانہ کے دکھ سُکھ میں رضاکارانہ شامل ھوتے رہے۔ وہ صآف گوہ اور بیباتک قسم کے فرد تھے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں لیکن تاحال کسی زوجہ سے انکی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ آج کل وہ انجمن امامیہ گجرات کے مشیر اعلیٰ ہیں۔  میاں محمدالدین کے فرزند ثانی میاں محمد ریاض تھے۔ جو 28 ستمبر 1904ء کو پیدا ھوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ فوج میں

Hast-o-Bood Part-45

  باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت میاں نوروں خان نہایت وجیہہ، تنومند، بارعب، صاحب کردار اور انتظامی امور میں ماہر ھونے کے علاوہ مانے ھوئے شہسوار بھی تھے۔ انہوں نے کمال خود داری اور وقار سے ملامت سرکار سرانجاب دی اور اپنے کنبہ کی احسن طریقہ سے پرورش اور کفالت کے بعد راہی ملک عدم ھوئے۔ وہ دین دار بزرگ تھے اور اُن کی اولاد میں سے اُن کے پسر اکبر میاں الہی بخش ملازمتِ سرکار کے ساتھ ساتھ دینی مشاغل میں انتہائی تندہی سے مصروف رہے جن کا مفصل احوال اپنی جگہ پر آئے گا۔ میاں رسول بخش بھِی حُسنِ سیرت، مروت، رواداری، شجاعت اور انتظامی استعداد میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ہر دو برادران نے اپنے نامور والد میاں محمد اعظم کی اعلی اقدار کو قائم رکھا اور اپنے فرزندان اور ورثاء کے لیے وہ اعلیٰ نقوش چھوڑے جو واضع لائحہ عمل کے تعین میں کسی دور میں بھِی راہنما اصولوں کے طور پر اختیار کرنے سے کامیاب زندگی کے امین ثابت ھو سکتے تھے۔ خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را ایک انگریز مفکر نے اس سلسلہ میں کیا ہی خوب کہا ہے  ترجمعہ : ہمیں اپنے عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ باب ہشتم میاں کمال

Hast-o-Bood Part-44

Image
 باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت انگریزوں کی آئے دن کی ریشہ دانیوں اور سکھ دربار میں غیر یقینی حالات کے پیش نظر میاں نور خان سال 1845 کے دوران ہی گجرات چلے آئے تھے۔ علاوہ آمدنی اراضِی جاگیر، سکھ دربار سے مبلغ 50 روپے ماہانہ پنشن سے وہ اپنی اور اہل خاندان کی پرورش کرتے رہے اور دن گزارتے رہے۔  میاں رسول بخش بھِی اپنے لڑکوں اور اہل خاندان کے ہمراہ گزربسر کرتے رہے اور اسی طرح کنبہ کے سب افراد محلہ چابکسواراں میں مقیم ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساجھی بن کر وقت گزارتے رہے تاآنکہ میاں رسول بخش کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے پیچھے دو ازدواج سے ذکور میں سے چار فرزند میاں امیر بخش، میاں وزیر بخش، میاں مراد علی اور میاں حسین بخش اور اناث سے واحد دختر جس کی شادی میاں نبی بخش سے ھو چکی تھی چھوڑے۔ میاں نورو خان بھی اپنے بھائی کے کچھ عرصہ بعد 29 اکتوبر 1877 کو راہی ملک عدم ہوئے۔ اُن کی جاگیر واقع موضع بانٹھ سِکھ عملداری کے بعد سرکارِ انگشیہ کی طرف سے بھِی بروئے فرمان چیف کمیشنر پنجاب مجریہ مورخہ 15 اگست 1855 اُن کی زندگی میں ہی واگزار رکھِی گئی تھی۔ اب اُن کی وفات پر ڈپٹی کمیشنر گجرات

Hast-o-Bood Part-43

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت Add caption  اِس فرمان کو مہر سپہ سالار گلاب سنگھ اور مُہر ہارنسی نصاری اور مہاراجہ کی گورکھ مکھی مُہر کے ساتھ جاری کیا گیا۔ اِس حکمنامہ کے ایک سال بعد ایک فرمان 22 بھادوں 1889 بکرمی سال 1843ء میں جاری کیا گیا جس میں صراحت کی گئِی کہ شاہزادہِ عالمیں کی طرف سے موضع بانٹھ میں جو چار معہ اراضی 80 بیگھہ بطور بخشیش اور 20 بیگھہ اراضِی بطریق انعام عطا کی گئی ہے اُس میں سے فصل ربیع 1889بکرمی سے جو آمدنی ھو اُسے فصل بہ فصل اور سال با سال میاں صاحب مذکورہ اپنے تصرف اور احتیاج میں لا سکیں گے۔ اِس فرمان شاہی کا اجراء بھِی مُہر سپہ سالار گلاب سنگھ ڈوگرہ مُہر کنہیا لعل تعلقہ دار، مُہر ہارلن نصاری اور مُہر بحروف ہندی سے کیا گیا۔  بعد 13 مگھر 1890 بکرمی سال 1844ء کو ایک حکمنامہ کی رو سے، جو کارپروازانِ لالہ کنہیا لال، مصر رام کشن، دیوی سہائے، رام سنگھ و محکہ سورا سنگھ کے نام جاری کیا گیا، تحریر ھوا جو کہ ایک کنواں واقع موضع سانٹھ تعلقہ گجرات قدیم ایام سے بوجہ مصاحبت نور محمد چابک سوار کو ملا اور شہزادہ بلند اقبال کنور کھڑک سنگھ جی نے اُسے واگذار رکھا او

Hast-o-Bood Part-42

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت  اپنے منصب کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے رہتے۔ اُن کے خلوص اور کردار کی بلندی سے حکومت اور عوام یکساں متاثر تھے۔ اُن کی معاملہ فہمی اور حکومت کا اُن پر اعتماد علم اُس حکمنامہ سے بخوبی ھو سکتا ہے جو سردار گلاب سنگھ ڈوگرہ سپہ سالار نے اُن کے نام 13 اسوج 1888 بکرمی کو جاری کیا اور جس میں اُن سے اُن کے زیر قبضہ قلعہ گجرات میں بارود کے وزن اور مقدار کی دریافت کی گئی تھی۔ نیز ان میں سے بے کار اور کار آمد بارود کے بارہ میں تخمینہ اور جس مقدار میں جدید بارود قلعہ میں رکھا جانا ضروری تھا کی نسبت استفسار کیا گیا۔ میاں رسول بخش کو قلعہ گجرات سے ملحق چند مکانات بھِی مہاراجہ کے ایما اور حکم سے دیئے گئے جہاں وہ اور اُن کے دیگر افراد کنبہ مقیم تھے۔ یوں وہ مستقلاً اپنے اصل مقام ہجرت میں واپس پہنچ گئے۔ میاں محمد اعظم کے چھوٹے فرزند میاں نورو خان اسی دوران میں مہاراجہ کی گھوڑ سواری کے شوق کے پیش نظر اپنے لیے ایک مختلف میدانِ کارکردگی انتخاب کر چکے تھے۔ انہوں نے لاھور کے مشہور چابکسوار خاندان کے بزرگوں سے شرفِ تلمذ اختیار کرتے ھوئے

Hast-o-Bood Part-41

Image
باب ہفتم گجرات میں راجپوت منگرال کی آمد و سکونت رائے عبدالحکیم کی گجرات میں آمد کے وقت اُن کے ہر سہ فرزندان میاں کمال دین، میاں محمد اعظم اور میاں محمد مقصود معہ دیگر اہل کنبہ نقل مکانی کرتے ھوئے اُن کے ہمراہ آئے۔ ظاہر ہے اس قدر طویل سفر کِسی معتد بہ رختِ سفر کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔ اُس زمانہ میں باربرداری اور بہ سہولت آنے جانے کے ذرائع بھِی مفقود تھے۔ پھر ہر طرف طوائف الملوکی کا دورہ دورہ تھا۔ اس لیَے پہاڑی راستہ کی کلفتیں اور بیگانہ سرزمین میں منزل بہ منزل قیام کی ناخوشگواری ایک حساس دِل رکھنے والے کو اِس مصیبت زدہ مہاجر کنبہ کے احوال کو سمجھنے کے لیے کسی منظر کشی کی طالب نہیں ھو گی۔ ریاست کی حدود سے نکل کر براستہ بھمبھر پیدل سفر سے افتاں و خیزاں یہ مختصر سا قافلہ سرزمین پنجاب کے سرحدی ضلع گجرات کی تحصیل گجرات کے صدر مقام تک پہنچا اور اولاً شہر کے مضافات میں فروش ھوا۔ یہاں نسبتاً سکون تھا کیونکہ سکھوں کے مستقل قبضہ اور عملداری کے باعث یہاں کا انتظام و انصرام ریاست کے ہنگامہ خیز زندگی سے ہزار درجہ بہتر تھا۔ محنت مزدوری اور روز ی کمانے کے بیسیوں زرائع میسر تھے۔ پھر محنت کے خوگر افراد کے

Hast-o-Bood Part-40

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان یہ سرزمین ایک طرف تو زندہ دلانِ پنجاب کا مسکن تھِی دوسری طرف اس کی مٹی حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کی حامل شخصیتوں کا رنگین امتزاج لیے ھوئے تھی جس میں وفا کا رنگ رچا بسا ھوا تھا۔ دارفتگی اور ایفائے عہد کی صفات نے مشہور دہرعشق و محبت کی داستانوں میں سوہنی مہیوال کی داستان کا اضافہ کیا جس سے سرزمینِ گجرات کو شہرت دوام حاصل ھوئی۔ اُس زمانہ میں صنعت ظروف سازی، چرم سازی، حُقہ سازی، لکڑی کا کام اپنے عروج پر تھا۔ غرض یہ گجرات اپنی گوں نا گوں رنگینیوں اور گندم کی پیداوار کی فراوانی کے سبب مشہور تھا۔ اِس لیے جہاں اطرافِ ضلع سے حاجت مند اصحاب یہاں کچھے چلے آئے اور وہاں حلحقہ علاقہ ریاست جموں کشمیر کوٹلی منگرالاں سے راجپوت منگرال خاندان کے چشم وچراغ رائے عبدالحکیم بھی ریاست میں آئے کی طوائف الملکوکی سے پریشان خاطر ھو کر معہ افراد کنبہ نقل مکانی پر مجبور ھو کر بے سروسامانی کے عالم میں گجرات چلے آئے اور ایسے آئے کہ وہ اور اُن کی آئندہ نسلیں مستقلاً یہیں کے ھو کر رہ گئے۔ یاد رہے کہ اُس زمانہ میں گجرات کا ضلع سکھوں کی حکومت کا ایک حصہ تھا اور سِکھ سردارو

Hast-o-Bood Part-39

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان Dargah Shah dola Gujrat ضلع گجرات کے موضع بوٹا متصل موضع ٹانڈا میں [1] نقیب طوس اولاد بنی اسرائیل کا مدفن بیان کیا جاتا ہے۔ موضع نجان متصل موضع مناورہ میں [2] فعینوش نامی اولاد سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام آسودہ خاک ہیں۔ جبکہ چھمب میں سیدا داود علیہ السلام کی اولاد میں سے فلسانوس کی قبر بتائی جاتی ہے۔  اِن کے علاوہ موضع دٹالہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں ہرشیا نامی کا مدفن ہے۔ شہر گجرات سے 5 میل جانب جنوب قصبہ کنجا میں قدیم صاحب دیوان و مثنوی نیرنگ عشق صوفی شاعر حضرت غنیمت کنجاہی آسودہ خاک ہیں۔ ان کی شہرت اُس دور میں جبکہ وسائل مواصلات آج کے ترقی یافتہ دَور کے مقابلہ میں نہ ھونے کے برابر تھے۔ ملک سے باہر مملکتِ ایران میں بھی بام عروج پر تھی۔ وہ اپنی گراں قدر مثنوی کو شاہِ فارس سے منسوب کرتے ھوئے یوں گویا ھوئے ہیں؛ بنامِ شاھد نازک خیالاں عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں اُس دور میں جبکہ اطراف و جانب میں خود شناسی، فقر و معرفت اور روحانیت کے سرچشمے گمراہ انسانیت کی اصلاح کے لیے مختلف مراکزِ فکرو نظر کا احاطہ کیے ھوئے تھے اور ملک کے

Hast-o-Bood Part-38

Image
باب ششم سرزمینِ گجرات، صُوبہ پنجاب کا خِطہ یونان ضلع گجرات صوبہ پنجاب کے دو دریائوں چناب اور جہلم کے دوآبہ میں واقع ہے اور اپنی منفرد تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ سکندراعظم کے حملہ ہند کے دوران اِس علاقہ کا حکمران راجہ پورس تھا۔ اِس ضلع کی تحصیل کھاریاں کے پہاڑی سلسلہ پبی کا موجودہ بلاپمیوو علاقہ جو اُس زمانہ میں "پاٹہ کوئی" کہلاتا تھا راجہ پورس کا پایہِ تخت تھا۔ عہد مغلیہ میں شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر اعظم کے زیر فرمان ایک سربرآوردہ فرد [1] وڈھیرا مہتہ کا کائل نے گجرات کی بستی کو جو ایک بڑے سے مٹی کے ٹیلے کی صورت میں تھی ایک پررونق شہر کی حیثیت دینے اور بادشاہ یا شہزادگان کے سفرِ کشمیر جنت نظیر کے دوران شاہی قیام گاہ یا درمیانی منزل کا شرف بخشنے کی خاطر اِس ٹیلے پر ایک پختہ حصار کی تعمیر کروائی۔ جس میں علاوہ رہائشی عمارات، مسجد، حمام، ڈھکی اور باولی برائے بہم رسائی آپ بھی بنوائے گئے۔ اِس قلعہ کی فصیل معہ متعدد بروج تعمیر ھوئی۔ قلعہ کے جنوب مشرق کی جانب اِس سے ملحق شاہی بارود خانہ کی تعمیر کی گئِی اور ایک محلہ کی صورت میں چند مکانات کی تعمیر برائے رہائش حکام و ملازمین سرکار عمل

Hast-o-Bood Part-37

Image
باب پنجم راجہ سہنسپال خان اور اُن کے ورثاء Mian Muhammad Asghar, Gujrat Book Dept. راجہ سہنسپال کے دور سلطنت میں قوم منگرال راجپوت کی غالب اکثریت ضلع میر پور کی تحصیل کوٹلی کے موضعات کوٹلی، تھروچی، بھیڑیاں اور براٹلہ کے علاوہ تحصیل سہنسہ اور گرد ونواح کے علاقہ میں قیام پزیر تھی۔ کوٹلی پہلے تحصیل کا صدر مقام تھا۔ راجہ سہنسپال کے چاروں پسران [1] رائے دان خان، رائے تاتار خان، رائے قندھار خان اور رائے جانب خان اپنی اولاد کے ہمراہ انہی موضعات میں مقیم رہے۔ اِن میں سے رائے قندھار خان  لاولد فوت ھوگئے اور بقیہ برادران صاحب اولاد ھوئے۔ ہمیں چونکہ منگرال راجپوت خاندان مقیم گجرات کا ہی تذکرہ اِس تالیف میں مقصود ہے صرف انہی ناموں کا اعادہ خصوصیت سے کیا جائے گا جن کی کڑیاں رائے عبدالحکیم سے مِلتی ہیں۔ رائے تاتار خان کے چار پسران میں سے رائے سرفراز خان اور اُن کے تین صاحبزادوں میں سے رائے ذاھد خان اور اُن کے دو لڑکوں میں سے پسرِ بزرگ رائے سداد خان اور اُن کے تین پسران خوردین پسر رائے بخش خان اور اُن کے واحد فرزند رائے مکو خان اور اُن کے اکلوتے لڑکے رائے محبت خان سے نسل منگرال بڑھتی چلی گئی۔ رائے مح

Hast-o-Bood Part-36

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ منگرال نوابی اپنے معزز و محترم بزرگوں کے بلند کردار کو اُجاگر کرنے اور کِسی منفرد مقام کے حصول کی لگن نے افراد اور اقوام کو ہر زمانہ میں نئِی نہج بخشی ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے متمیز کرنے اور بقائے دوام کی آرزو نے ہی افراد اور قوموں کے جداگانہ تاریخ کا احیاء کیا ہے۔ غالبًا یہی وہ جذبہ ہے جو منگرال راجپوت قوم کی ایک شاخ کے نوابی منگرال کہلانے کا محرک بنا۔ منگرال قوم کی یہ نودمیدہ شاخ راجہ جنگ خان منگرال کے ذی اقتدار پسر راجہ نواب خان کے نام سے اب اندرون کنبہ موسوم کی جا رہی ہے۔ جو موضع سرہوٹہ تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی میں ایک معزز و محترم شخصیت تھے۔ تمام گاوں کی اراضِی کی ملکیتی حقوق کے حامل باوقار، صحب الرائے اور سرکاری درباری اثرورسوخ کے مالک بزرگ ھونے کے ناطے سے اُن کے ورثاء نے اُن کو اُن کے نام پر نوابی منگرال کہلانا پسند کیا۔ راجہ نواب خان منگرال کے واحد پسر راجہ روڈا خان بھی علاقہ کے زمیندار ھونے کے علاوہ ایک منجھے ھوئے شکاری تھے۔ ڈوگرہ حکومت میں وہ سرکاری افسران میں جنگلی شکار کے ماہر ھونے کی بناء پر بہت مقبول تھے۔ ڈوگرہ مہا

Hast-o-Bood Part-35

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ صوبیدار پینشنر راجہ الف خان منگرال صوبیدار پینشنر راجہ الف خان منگرال خانوادہ کے راجہ نورداد خان ولد راجہ حیدر خان کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1940ء میں بطور سپاہی کیا۔ شِروع ہی سے اپنی کار منصبی کو زندہ و قائم رکھتے ھوئے اپنے لیے ملکی دفاع کے زمرہ میں نام پیدا کرنے کی امنگ اُن کو ہر معرکہ حیات میں پیش پیش رکھنے میں ممد ثابت ھوئی۔ اپنی محنت، شرافت اور سچی لگن وہ شُدہ شُدہ ترقی یاب ھو کر 1969ء میں بطور صوبیدار فوج سے ریٹائر ھوئے۔ فوج سے سبکدوشی کے بعد بھِی اُن کا جذبہ خدمت جوان رہا اور منگلا ڈیم پراجیکٹ کے سلسلہ میں سابقہ میر پور کی آبادی جھیل میں مدغم ھو جانے کے بعد جدید میر پور شہر میں انہوں نے صنعتی ایریا میں ریاستِ آزادکشمیر کا اپنی نوعیت کا پہلا پرائیویٹ ادارہ "کشمیر آئل ملزمیرپور" قائم کیا۔ اور یوں اپنے پیارے وطن کی صنعتی ترقی میں سرگرمِ کار رہے۔ اُن کے تین پسران راجہ خالد جاوید، راجہ ساجد جاوید اور راجہ ماجد جاوید ہیں۔ راجہ محمد غضنفر منگرال آپ راجہ نورداد خان منگرال کے تیسرے فر

Hast-o-Bood Part-34

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ میجر راجہ الف خان منگرال آپ 1895ء میں راجہ طالع مہندی منگرال کے ہاں موضع فتح پور تحصیل و ضلع میر پور میں تولّد ھوئے۔ خاندان میں باوجود ریاستی وسائل تعلیم کی کمی اور ڈوگرہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے محدود سہولتوں کے مہیا کیے جانے تعلیمی رجحان موجود تھا۔ ابتدائی تعلیمک کے بعد سال 1914ء میں میٹرک پاس کیا اور عملی زندگی میں افواج ہند میں بطور سپاہی کلرک سال 1915ء میں شامِل ھوئے۔ پڑھے لکھے تو تھے ہی اپنی محنت، دیانت اور اطاعت شعاری سے یکم اپریل 1921ء کو فرسٹ پنجاب رجمنٹ میں حوالدار نائک بنائے گئے۔ اپنی اعلی فوجی استعداد اور فنی مہارت کی بنا پر حکومت برطانیہ کی طرف سے دو پشت تک کے لیے مبلغ 5 روپے مہوار جنگی انعام حاصل کیا اور یکم اکتوبر 1931ء میں بطور جمعدار ترقیی یاب ھوئے۔ اسی عہدہ سے 24 فروری 1940ء میں ریٹآئر ھوئے۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے دوران 30 ستمبر 1941ء کو پھر فوج سے طلبی ھوئی اور انہیں فرسٹ پنجاب ریجمنٹ میں 10 جنوری 1942ء کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ ترقی دے دی گئِی۔ بعد میں 25 نومبر 1947ء کو انہیں عارضِی میجر بنایا گیا او

Hast-o-Bood - Lt. Karam Dad Khan (Late)

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ مولف ریاستی علاقہ میرپور، گلپور اور کوٹلی منگرالاں کی یاترا کے دوران منگرال راجپوت قوم کے متعدد شخصیتوں سے ملا لیکن پھر بھی اس خطہ کی بہت سے برگزیدہ ہستیوں اور صاحب اقبال پیش رو بزرگان کے حالات وقت کی تنگ دامانی اور اُن سے متعلق ریکارڈ یا ذاتی روابط کے فقدار کی وجہ سے حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ بااینہمہ چند ایک باقید حیات افرادِ قوم کے حاصل کردہ مختصر احوال قارئین کے لیے باعث دلچسپی ہونگے۔ {{{نوٹ:  کتاب ہست و بود میں یہاں سے آگے بہت سے بزرگان کا ذکر ہے جو کتاب کی ترتیب سے ہی شیئر کیا جائے گا۔ بلاگر یہاں پر آپ کو پہلے اُس ہستی کا تذکرہ کرانا چاہتا ہے جو کرنل محمود خان صاحب کے دست راست تھے۔ جو نہ صرف کرنل صاحب کے ساتھ ہر محاذ پر ان کے ممدو و مدگار رہے بلکہ 12 اے کے کھڑی کرنے میں بھی آپ برابر کے شریک تھے۔ بلاگر کا اشارہ یہاں مرحوم لیفٹیننٹ کرم داد خان آف گھڑتہ کی طرف ہے۔ ان کا ذکر آپ کو اتنا ضرور بتانا ضروری ہے جتنا علم بلاگر کے پاس موجود ہے۔ میاں اعجاز نبی کی روح سے معذرت کے ساتھ کہ کرنل محمود صاحب کے بعد اگر بطور آرمی آفیشیئل کسی

Hast-o-Bood Part-33

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ قلعہ تھروچی پر مکرر قبضہ کرنے کے بعد کرنل رحمت اللہ ڈوگرہ کمانڈر نے کپتان پریتم سنگھ سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد علاقہ میں گشت کے لیے متعدد پلاٹون بنائیں اور کرنل راجہ محمد محمود خان کی اقامت گاہ کے بالکل ملحق بلکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اپنی فوجی چوکی قائم کر دی تاکہ وہ کرنل صاحب اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمی پر کڑی نظر رکھ سکیں۔اِس چوکی پر گورکھا سپاہی تعینات کئی گئے۔ اب کرنل صاحب کے لیے صورت حالات نہایت سنگین ھو گئِی۔ اگلے دن جب اس چوکی سپاہی تبدیل کرنے کے سلسلہ میں کرنل رحمت اللہ بھِی آئے تو کرنل راجہ محمد محمود خان نے اُن سے تخلیہ میں بات چیت کرنے کی استدعا کی۔ چنانچہ ہر دو نے تھوڑے عرصہ کے لیے بطور مسلم برادران ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل سے سنا۔ کرنل راجہ محمد محمود خان نے کرنل رحمت اللہ کو کہا کہ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ریاست کا حکمران سِکھ ہونے کے باوصف اپنے آباء و اجداد سے سے ہی اسلام کا دشمن ہے۔ اگر اب ہم نے غیر مسلموں کی جابرانہ حکومت سے گلو خلاصی نہ کروائِی تو اس سرزمین میں کشمیری عوام ہمیشہ کے لیے غلامی کی