Posts

Showing posts from July, 2020

Hast-o-Bood Part-33

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ قلعہ تھروچی پر مکرر قبضہ کرنے کے بعد کرنل رحمت اللہ ڈوگرہ کمانڈر نے کپتان پریتم سنگھ سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد علاقہ میں گشت کے لیے متعدد پلاٹون بنائیں اور کرنل راجہ محمد محمود خان کی اقامت گاہ کے بالکل ملحق بلکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اپنی فوجی چوکی قائم کر دی تاکہ وہ کرنل صاحب اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمی پر کڑی نظر رکھ سکیں۔اِس چوکی پر گورکھا سپاہی تعینات کئی گئے۔ اب کرنل صاحب کے لیے صورت حالات نہایت سنگین ھو گئِی۔ اگلے دن جب اس چوکی سپاہی تبدیل کرنے کے سلسلہ میں کرنل رحمت اللہ بھِی آئے تو کرنل راجہ محمد محمود خان نے اُن سے تخلیہ میں بات چیت کرنے کی استدعا کی۔ چنانچہ ہر دو نے تھوڑے عرصہ کے لیے بطور مسلم برادران ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل سے سنا۔ کرنل راجہ محمد محمود خان نے کرنل رحمت اللہ کو کہا کہ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ریاست کا حکمران سِکھ ہونے کے باوصف اپنے آباء و اجداد سے سے ہی اسلام کا دشمن ہے۔ اگر اب ہم نے غیر مسلموں کی جابرانہ حکومت سے گلو خلاصی نہ کروائِی تو اس سرزمین میں کشمیری عوام ہمیشہ کے لیے غلامی کی

Hast-o-Bood Part-32

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ اب جہاد کا محور کرنل راجہ محمد محمود خان کا علاقہ گلپور، تھروچ اور کھٹکلی تھا جس کے حدود میں تھروچی کا مضبوط قلعہ ڈوگرہ حکومت کا اس علاقہ میں آخری استعماری نشان تھا۔ اِس قلعہ میں دو پلٹن فورس تھی۔ جس میں سے ایک پلٹن مسلمان سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل تھی جبکہ دوسری پلٹن گورکھا سپاہیوں کی قیادت کیپٹن پریم سِنگھ گورکھا کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن مسلمان پلٹن میں دو افسران کرنل محمد حسین اور کمانڈنٹ کرنل رحمت اللہ تھے۔ اس لحاظ سے ہر دو پلٹنوں کی اعلیٰ قیادت کرنل رحمت اللہ کے پاس تھی جس نے کرنل راجہ محمد محمود خان کو قلعہ تھروچی میں طلب کیا۔ راجہ صاحب کرنل رحمت اللہ کو پہلے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے بلا خوف وخطر اُس کے پاس چلے گئے۔ اُس نے راجہ صاحب سے رسد اور خوراک کی فراہمی کی استدعا کی۔ جو اسلامی اخوت اور جذبہ خیر سگالی کے تحت راجہ صاحب نے مہیا فرما دی۔ اِس پر انہیں کہا گیا کہ وہ لوکل ہندو آبادی سے بھِی فراہمی خوراک کے سلسلہ میں رابطہ قائم کریں۔ چنانچہ وہ اسی بہانہ تمام علاقہ میں حالات کا جائزہ لیتے رہے اور اپنی تنظیم کی سرگرمیوں

Hast-o-Bood Part-31

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Col. Raja Muhammad Mahmood Khan (Late) مہاراجہ گلاب سِنگھ ڈوگرہ نےعلاقہ کوٹلی کے مضبوط ترین قلعہ تھروچی کو اپنی صوابدید کے مطابق پھر سے درست کروایا اور اِس کی جنگی اہمیت، حکومت کی انتظامی گرفت کے پیش نظر اور قوم منگرال کو مطیع رکھنے کی غرض سے یہاں مضبوط فوجی چوکی قائم کی جو تقسیم پاک و ہند تک قائم رہی۔ مملکتِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر میں بھی تحریک آزادی نےانگڑائی لی اور ڈوگرہ غلامی کے جوتے کو اُتار پھینکنے کی جدوجہد زور شور سے شروع ھوئی۔ منگرال راجپوت قومی غیرت اور انتقام کی آک میں پچھلی صدی سے جل رہے تھَے۔ اُن کی بیشتر نفری انگریزی افواج میں بھرتی ھو کر لہو گرم رکھنے کے بہانہ عہدِرفتہ کو آواز دیتی ھوئِی  وقت سے سمجھوتہ کیے ھوئے تھی۔ اکثر فوجی پینشنرز آتشِ زیر پا عزم کی مشعلیں روشن کیے ھوئے تھے۔ کسے خبر تھی کہ قلعہ تھروچی جو سردار ستارمحمدخان منگرال اور اُن کے جیالے ساتھیوں سے بزور شمشیر سِکھوں نے حاصل کیا تھا۔ اُن کے زیرک اور بہادر پڑپوتے کرنل محمد محمود خان کی حکمت عملی اور حسنِ تدبر سے

Hast-o-Bood Part-30

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ تھروچی کا مضبوط قلعہ راجہ سہنس پال جب امور سلطنت سے فارِغ ھوا تو اُس نے ریاست میں ترویج دینِ اسلام اور عوام کے رجحانات کا بہ نظر عمیق جائزہ لینا شروع کیا۔ اسلامی بھائی چارہ، رواداری، تنظیم اور اخلاق نے اُسے انتہائی طور پر متاثر کیا۔ دن بدن غور و خوض اور دلچسپی نے اُسے دینِ برحق کی طرف پورے طور سے راغب کر دیا اور وہ کلمہ پڑھے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس کے دین اسلام قبول کرنے سے کوٹلی کے تمام معتبرین نے مذہب اسلام قبول کر لیا۔ راجہ سہنس پال نے باوجود مسلمان ھوجانے کے اپنا نام تبدیل نہ کیا۔ اپ اُس نے اپنے موروثِ اعلی راجہ مہنگرپال کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے کوہ تلی {پہاڑ کے نیچے} وادی میں کوٹلی منگرالاں نامی بستی آباد کی۔ [1] ۔ اور پوری کوشش سے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مستقل دارالسلطنت کا انعقاد کیا۔ یہاں کی آبادی دن بدن بڑھتی گئِی۔ راجہ سہنس پال کی وفات پر اُس کے چار شہزادوں راجہ دان خان، راجہ تاتار خان، راجہ قندھار خان اور راجہ جانب خان سلطنت کے مختلف اطراف و جوائب میں پھیل گئے۔ راجہ دان خان کے پسر راجہ پریتم خان اور اُن کے صاحب زادے

Hast-o-Bood Part-29

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Sehensa Valley  راجہ سہنس پال ایک ایک مدبر، پیش بین اور وسیع النظر انسان تھا۔ اُس نے اپنے خداداد فراست سے بھانپ لیا کہ قدرت اُس پر مہربان ہے اور تاج سلطانی کی راہیں اُس کے لیے خود بخود ہموار ہو رہی ہیں۔ چنانچہ اُس نے کمال دانائِی اور وقار سے مہتروں سرداروں کو دان پُن کرتے ھوئے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور انہیں ہر طرح سے یقین دلایا کہ اُن کی مکمل طور پر رکشا رکھے کرے گا۔ اُس نے ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے موجودہ گائوں میں اپنے کچھ ساتھیوں کو چھوڑ کر خود مہترعملداروں کے پہاڑی سلسلہ کے گائوں نکہ ٹرانہ میں اقامت اختیار کرے لے گا۔ اپ وہ نئی جگہ پر معہ اپنے معتبر معتقدین آباد ھو چکا تھا۔ راجہ سہنس پال نے یہاں بھِی اپنی روایتی رواداری، محبت و آشتی، راج نیتی اور داد وہش سے اہلِ موضع اور اردگرد کے ساکنان علاقہ کے دلوں کو رام کر لیا اور جلد ہی عوم و خواص اُس کے گن گانے لگے۔ حتی کے رفتہ رفتہ مہتر سرداروں کا اثرورسوخ زائل ھوتا گیا۔ راجہ سہنس پال کسی مناسب وقت کے انتظار میں رہا کیونکہ گکھڑ سرداراپنے پروردہ مہتروں کے پشت و پناہ ہیں۔ اِس

Hast-o-Bood Part-28

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ Maharaja Sri Sir GANGA SINGHJI Bahadur Courtesy of Bekaner Website   راولپنڈی سے ایک آرام دہ اور قدرتی مناظر سے بھر پور راستہ کشمیر کو جاتا ہے۔ راولپنڈی سے بہارہ کہو تیرہ میل، بہارہ کہوسے تریٹ بارہ میل، تریٹ سےکوہ میری سنی بنک ساڑھے تیرہ میل، سنی بنک سے پھگواڑی چودہ میل، بھگواڑی سے کوہالہ ساڑھے چودہ میل، کوہالہ سے دولائِی بارہ میل، دولائی سے دومیل بارہ میل، دومیل سے گڑھی چودہ میل، گڑھی سے چکوٹھِی بتیس میل، چکھوٹی سے اوڑی تیرہ میل، اوڑی سے رام پور ساڑھے تیرہ میل، رام پور سے بارامولا چودا میل، بارا مولا سے پٹن سترہ میل، اور پٹن سے سرینگر سترہ میل۔ منگرال قوم کی تاریخ ماضِی کے دھندلکوں اور وقت کی گرد سے اٹی پڑی ہے۔ اِس قوم کے ذی مرتب حکمرانوں نے دیگر سابقہ ریاستی سرداروں کی طرح اپنے بزرگوں کے شجرہ نسب کی حفاظت کے لیے ریاست کے چیدہ چیدہ داستان گو اور میراثی قوم کے افراد کا انتخاب کیا۔ جنہون نے شجرہ قوم کو حفظ کرنے کے علاوہ اہمیت کے حامل شواہد کو کتب کی صورت میں اپنے سینوں میں محفوظ رکھا۔ اِن میں سے سر فہرست رائے قادر مرا

Hast-o-Bood Part-27

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ مہاراجہ ہری سِنگھ برصغیر کی تاریخ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو اور قائداعظم محمد علی جناح رح کی ولولہ انگیز قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ نے ریاستی مسلمانوں میں بھی جوش اور اشتیاقِ آزادی پیدا کیا۔ اب وقت کی ضرورت کے تحت مسلم کانفرنس کی بناء ڈالی گئی اور یوں کشمیری اپنے محبوب قائدین سردار عبدالقیوم، سردار محمد ابراہیم، چوھدری غلام عباس، مسٹر کے ایچ خورشید، میر واعظ محمد یوسف، میر واعظ محمد فاروق وغیرہم کی قیادت میں کفن بردوش میدانِ عمل میں کود پڑے۔ مہاراجہ ہری سِنگھ نے اپنی خاندانی نسحہِ تشدد کو آزمایہ۔ حریت پسندوں پر گولیوں کی بوچھاڑ، متعدد بار اور مختلف مواقع پر کروائی لیکن اِس سیلاب کے آگے ریت کا بند باندھنا نا ممکن ھو گیا۔ پاکستان بننے کے اعلان کے ساتھ ہی، بھمبر، پونچھ، کوٹلی، گلپور، تھروچی اور ریاست کے غربی علاقوں کے فوجی تربیت یافتہ پنشن خواران سرکارِ انگریزی افراد نے بزور شمشیر ریاستی بزدل ڈوگرہ افواج سے موجودہ آزادکشمیر کا علاقہ چھین لیا۔ جب مہاراجہ ہری سِنگھ کو بزور شمشیر اپنی کامیابی ناممکن دکھائی دی تو وہ سری

Hast-o-Bood Part-26

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ مہاراجہ گلاب سِنگھ سِکھ افواج میں کمی کر کے بیس ہزار پیادہ فوج اور بارہ ہزار سوار کر دی گئی۔ اور اُن کے خلاف ڈیڑہ کروڑ روپیہ تاوانِ جنگ ڈالا گیا۔ خزانہ چونکہ بالکل خالی تھا اِس لیے تاوانِ جنگ کی ادائیگی سِکھ حکومت کے لیے ایک بہت بڑی دردسری تھی۔ اِس موقع پر سردار گلاب سنگھ ڈوگرہ کی ابن الوقتی، عیاری اور پیش بینی کام آئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں بطور سپہ سالار حکمرانی کا نشہ اور فرمانروائی کا چسکہ حصولِ مقصد کے لیے اُسے انگریزوں کی خوشنودی میں نظر آیا۔ اُس نے انتہائی چاپلوسی اور عیاری سے اُن سے معائدہ امرتسر سولہ مارچ سن اٹھارہ سو چھیالیس عیسوی طے کیا اور پچتر لاکھ روپیہ نانک شاہی کے عوض ریاستِ جموں کشمیر کے اقتدارِ اعلی کا پروانہ حاصل کر لیا۔ اور یوں ایک نام نہاد جمہوریت اور سچائی پسند انگریز حکمران قوم جنہوں نے ریشہ دانیوں، سازشوں اور پھوٹ ڈالنے سے مسلمانوں کی حکومت کا ہندوستان میں قلع قمع کیا تھا۔ اِس غالب مسلم اکثریت کے خطہ جنت نظیر کو سودہ بازی سے بغیر عملی تسلّط حاصل کیے سِ

Hast-o-Bood Part-25

Image
باب چہارم ریاست جموں کشمیر کا تاریخی پس منظر اور مختصر جائزہ مہارانی جنداں کو ر اِس فوج نے گیارہ رمضان المبارک سن بارہ سو چونتیس ہجری کو ریاست کشمیر کو مکمل طور پر فتح کر کے سِکھ دربار کی ذیلی ریاست بنا دیا۔ سِکھ سرکار لاھور کی جانب سے مختلف ادوار میں یکے بعد دیگرے نو صوبیدار کشمیر پر حکمران رہے۔ جن میں مِسر  دیوان چند، دیوان دیوی داس، دیوان موتی رام، شہزادہ شیر سِنگھ [۱] سال اٹھارہ سو بتیس عیسوی تا سال اٹھارہ سو چونتیس عیسوی، دیوان ہری سِنگھ نلوہ، دیوان کرپارام شرائوں، اور[۲] مہاراجہ رنجیت سِنگھ کا خُوبرو اردلی بھمہ سِنگھ قابِل ذکر ہیں۔  موآخذکر کو سال اٹھارہ سو اکتیس عیسوی میں صوبیدار کشمیر مقرر کیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سِنگھ خوبصورت اور قدآور افراد کی قدر کرتا تھا۔ غالباً یہی سبب اُس کے اَردلی کے صوبیدارکشمیر بننے کا بنا۔ دربارِلاھور کی جانب سے کشمیر کا سِکھ اقتدار سال اٹھارہ سو انسیس عیسوی تا اٹھارہ سو چھیالیس عیسوی پر محیط ہے۔ مہاراجہ رنجیت سِنگھ سن اٹھارہ سو انتالیس میں مر گیا۔ اُس کے مرنے کے بعد اُس کی رانی راج کور کے بطن سے اُس کا فرزند کھڑک سِنگھ سال اٹھارہ سو ا